سوچ کے زاویے

213

ام حسنین
میرے دونوں بیٹے ابھی عمر کے اس دور میں ہیں جب کر کٹ کھیلنے اور اپنی بیٹنگ کے لئے لڑ جھگڑ جانے کو معمولی بات سمجھتے ہیں، کر کٹ کے اصول و ضوابط کوئی ان سے جان لے ،کوئی بہن بھائی ان میں تبدیلی کر دے تو لڑائی زیادہ اور کھیل کم لیکن میری محسوسات میں ہمیشہ یہ بات رہے گی کے جب جب ہمارا فیملی کر کٹ ہوتا ہے تو دونوں بچے مجھے بہت ہلکی بال کرواتے ہیں، دونوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کے امی آوٹ نہ ہوں اور اگر ہو جائیں تو پھر یہ کے نہیں یہ میں نے نو بال کر وائی تھی غرضیکہ کوشش یہ جاری رہتی ہے کے اماں زیادہ سے زیادہ کھیل لیں ۔۔۔اس محبت کو احترام کہوں یا ادب کی کتاب میں اس کو ڈھونڈوں، اس احساس کو ختم کرواوں یا پنپنے دوں، انھیں اس نئے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ چلنے کی راہ دکھاؤں یا انھیں ایسا ہی حساس انسان بننے کی تلقین کروں؟ سوچتی ہوں کے ایسانہ ہو کہ جب ہوا لگے گی تو یہ سارے احساس اڑا لے جائے خواتین کو دیکھ کر جو ابھی سے سر جھکا لیتے ہیں اپنا راستہ بدل لیتے ہیں انھیں جب اپنا حق ،اور برابری کی بازگشت سنائی دے تو یہ کیسے اپنے اس احساس کو کچلیں گے کے سب کو برابر ہی لینا چاہیے ، خواتیں سے عزت اور احترام سے پیش آنے کی فطرت کو مسخ کر کے کیسے وہ ان سے آگے چل پائیں گے ۔میرے آنگن سے نکل کر جب زندگی کی پکی شاہراہ پر آئیں گے تو کیسے یہ احساس زندہ رہ پائے گا کے قدرت ہونے کے باوجود اپنا حق کسی کمزور کے لیے چھوڑ دیں، اپنی گاڑی سے اتر کر کسی کا ٹائر بدل دیں کسی کو اپنی جگہ دے دیں کسی انجانے کے لیے اپنا مقام چھوڑ دیں کیونکہ برابری کا سبق مستقل ان کے ذہنوں پر دستک دے رہا ہے ،خودغرضی کی دنیا میں مطلبی کی کامیابی ہی نظر آرہی ہے۔میں نے ماں کو ہلکا بال ڈالنے کا احساس ان کو نہیں دیا یہ تو اللہ نے ان کی فطرت میں ڈالا ہے اور اگر میں ان کی فطرت کو تبدیل کروں گی تو کائنات کا یہ نظام جس کے یہ پرزے ہیں اس کو مسخ کرکے عدم توازن پیدا کر دوں گی تو کیوں نہ ان پودوں کو اس احساس کے ساتھ ہی سینچ لوں کے آگے جب یہ شجر سایہ دار بنیں تو سب کو ہی یکساں فائدہ دینے والے ہوں ۔