امریکا افغانستان میں سوویت یونین کے نقش ِ قدم پر

810

سابق امیر جماعت ِ اسلامی سید منور حسنؒ نے 2008ء کو کراچی میں گو امریکا گو تحریک کے دوران ایک ریلی میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ امریکا افغانستان سے نکلنے کے لیے محفوظ راہداری کی تلاش میں ہے اور پنٹا گون کا خیال ہے کہ اگر امریکا افغانستان سے نہیں نکلا تو اس کا حشر افغانستان میں سویت یونین جیسا ہوگا۔ لیکن بدھ 17فروری کو صدر بائیڈن نے افغانستان، پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ربیکا زیمر مین rebecca zimmerman نامی خاتون کے تقرر کا اعلان کرتے ہو ئے زلمے خلیل زاد کو افغان مسئلے الگ کر دیا اور اس کا یہ مقصد بتایا جارہا ہے کہ یہ افغان امن معاہدے کا ربیکا زیمر مین از سرِ نو جائزہ لیں گی جس پر فوری ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے 18فروری 2021ء کو FP نے سید منور حسن کا 2008ء کا جملہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ !America Is Going the Same Way as the Soviets in afghanistan امریکا افغانستان میں سوویت یونین کے راستے پر گامزن ہے اخبار اس کی تفصیل میں لکھتاہے کہ! افغانستان میں امریکا کی مکمل شکست اور طالبان کی مکمل فتح کا وقت بہت قریب آگیا ہے۔ امریکا ایک مرتبہ پھر افغانستان میں خانہ جنگی کی مدد سے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے جس میں وہ بھارت اور کمزور افغان حکومت کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا جس سے انسانی ہلاکتوں اور امریکا ناکامی سے دوچار ہوگا۔ یہی کچھ گلبدین حکمت یار نے چند دن قبل کہا ہے کہ امریکا مکمل بربادی کے بعد ہی افغانستان نکلے گا اور اس کا حشر سویت یونین جیسا ہوگا۔ گلبدین حکمت یار نے اکتوبر 2020ء میں بھی یہی کہا تھا کہ امریکانے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارتی انتخاب میں ہار بھی جائیں تو پھر بھی انخلا ہوگا۔ انخلا کا فیصلہ صرف ٹرمپ کا نہیں سی آئی اے پنٹا گون اور فوجی جرنیلوں کا بھی ہے۔
امریکی صدر کے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کر دینے کے اعلان کے بعد طالبان نے ردعمل میں کہا تھا کہ ’مذاکرات کی منسوخی کا سب زیادہ نقصان امریکا کو ہوگا‘۔ جس کے بعد 23 ستمبر 2020ء کو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن مقرر کیا تھا اور اسی دن مذاکرات ہوئے تھے۔ لیکن افغان اور بھارتی حکومتوں کے اتحاد نے ان مذاکرات کو اب تک تباہی سے دوچار کر رکھا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا امن مخالف موقف دنیا کو نظر آئے گا اور اْن کی جان اور مال کا نقصان زیادہ ہوگا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 سال کی ’جدوجہد‘ نے یہ ثابت کر دیا کہ جب تک افغانستان سے تمام بین الاقوامی افواج کا انخلا نہیں ہوتا، وہ کسی دوسری چیز پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ اْن کے مطابق اس ٹارگٹ کی حصولی تک جنگ جاری رہے گی۔ FP کا کہنا ہے کہ! U.S. forces too soon could trigger civil war, hand the Taliban victory امریکی افواج بہت جلد خانہ جنگی کا آغاز کرنے کی تیاری کررہی ہیں، جس کی وجہ سے طالبان فتح سے ہمکنار ہوں گے۔
2011-2012 میںجب افغانستان میں ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب غیر ملکی فوجی طالبان کے خلاف جنگ میں شامل تھے۔ صدر اوباما کے دور میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہوا اور 2014 تک امریکا اور ناٹو نے افغانستان میں عسکری آپریشن ختم کر دیے تھے اور امریکی افواج کی تعداد 10ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن اس انخلا کے وقت اُس وقت کے نائب اور موجودہ صدر جو بائیڈن افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا کے مخالف تھے۔ اس کے بعد ہی سے افغان فورسز نے سیکورٹی کی ذمے داری سنبھال لی۔ طالبان نے اس انخلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اضافہ کیا۔
افغان فورسز نے طالبان کے خلاف کارروائیاں تو کیں لیکن انہیں شدید نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ 2015 سے اب تک طالبان کے خلاف لڑائی میں 30ہزار افغان فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ اسی عرصے میں 60 امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان اعدادو شمار میں اتنے بڑے فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب امریکی فوجی عسکری آپریشنز کا حصہ نہیں۔ جو بائیڈن کی نئی پالیسی میں یہ دیکھنا بھی ابھی باقی ہے کہ اس امریکی فیصلے کے بعد ناٹو کیا فیصلہ کرتا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکی افواج کا انخلا ہوگا یا اس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اس بارے میں کوئی حتمی اعدادو شمار ہمارے پاس نہیں ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ملک کا آدھے سے زیادہ علاقہ ان کے قبضے میں ہے تاہم اس کی تصدیق ممکن نہیں۔ حکومت کے پاس کوئی مستند اعداد وشمار نہیں تاہم مختلف موقعوں پر مختلف سرکاری اہلکار مختلف نمبر بتاتے ہیں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس 2001 میں حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد سے لے کر اب تک سب سے زیادہ علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور دنیا میں حکومتوں کے قیام کے تمام فارمولے یہی بتاتے ہیں کہ افغانستان پر حکمرانی کا صرف طالبان کو حق ہے لیکن جو بائیڈن کے آتے ہی افغانستان میں امریکا طالبان سے ایک مرتبہ پھر حکمرانی کا اختیار طاقت کے زور پر پراکسی وار کی مدد سے ختم کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔ لیکن بھارت کی وجہ سے جو بائیڈن اس کردار کے سخت مخالف ہیں لیکن اب امریکا کو اپنے ہی اخبارات کی خبروں اور تبصروں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو ان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان میں مسلمانوں کا قتل ِ عام اور امریکی افواج کی بربادی کو روکیں اور اگر ایسا نہ کیا تو امریکا سویت یونین کی طرح ’’مانگتا پھرے گا اپنا غرور سب سے‘‘۔