عمران خان کی اوورسیز پاکستانیوں سے توقعات

563

وزیراعظم عمران خان نیازی ان دنوں کرکٹ کپتان کی طرح متحرک ہیں، کون سی گیند کب کرانی ہے اور کس گیند کو ہٹ کرکے چھکا لینا ہے وہ پہلے ہی سے خوب جانتے ہیں۔ وہ سیاست اور حکمرانی کو بھی شاید کرکے میچ کی طرح سمجھنے لگے ہیں۔ دو روز قبل وزیراعظم نے اپنی ہی حکومت کی پٹرولیم کی مصنوعات میں اضافے کی سفارشی سمری کو مسترد کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے دراصل وزیراعظم عمران خان نے اپنے قوم کے ساتھ محبت و خلوص کے اظہار کا چھا مارا۔ لیکن انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ صرف بلا گھوما ہے گیند تو پچ سے آگے ہی نہیں بڑھ پائی، اپنی باری کے دوران انہوں نے 16 اور 17 فروری کو ٹیوٹ کیا جس میں انکشاف کیا کہ مرکزی بینک کے روشن ڈیجیٹل اکاوئنٹس Roshan Digital Accounts کی بھرپور پزیرائی پر میں سمندر پار پاکستانیوں کا شکر گزار ہوں۔ دنیا بھر کے97 ممالک سے 87,833 اکاؤنٹس کھولے گئے اور محض 5 ماہ کی مدت میں 500 ملین ڈالر وطن بھجوائے گئے۔ گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران پاکستان منتقل ہونے والے 243 ملین ڈالر کے ساتھ یہ سلسلہ تیز تر ہورہا ہے۔
اس ٹیوٹر پیغام سے ایک روز قبل انہوں نے ٹیوٹ کیا تھا کہ ’’سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے جنوری میں بھجوائی جانیوالی ترسیلاتِ زر 2.27 ارب ڈالر رہیں جو جنوری 2020 سے 19فی صد زیادہ اور لگاتار آٹھویں ماہ بھی 2ارب ڈالر سے زائد رہیں۔ رواں مالی سال میں اب تک یہ گزشتہ برس کی نسبت 24فی صد زیادہ ہیں۔ ملک کی لیے یہ ایک ریکارڈ ہے جس پر میں اپنے سمندر پار پاکستانیوں کا شکرگزار ہوں‘‘۔ یہ پیغامات پڑھ کر یقینا بیش تر پاکستانیوں نے سوچا ہوگا کہ ’’کپتان تو واقعی سنجیدہ لگ رہا ہے‘‘۔
مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان سے باہر محنت کرنے والے وطن پرستوں کی محنت مزدوری کی کمائی سے بھائی ’’عمو‘‘ کی حکمرانی کا کیا تعلق؟ وہ کیوں ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ بن رہے ہیں؟ وزیراعظم عمران خان جنہیں میں پیار سے بھائی عمو کہنا چاہوں گا، نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی اوورسیز پاکستانیوں کی غیر معمولی تعریف کی اور کہا کہ 97 ممالک 88 ہزار بینک اکاوئنٹس کھولے گئے ہیں۔ وزیرِاعظم نے بتایا کہ گزشتہ ڈھائی سال میں ریکارڈ 6 ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے ہیں۔ وزیرِاعظم ریکارڈ قرضوں کی واپسی کا ذکر کرتے ہوئے خوشی سے مسکرا رہے تھے۔ انہیں مسکرا بھی چاہیے کیونکہ ان کی حکومت ان کے خیال میں کامیابیاں حاصل کررہی ہے۔ مگر دوسری طرف قوم ملک میں مہنگائی میں ہونے والے اضافے سے رونے پر مجبور ہے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کی جگہ اداسی اور مستقبل کے حوالے سے مایوسی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ وزیرِاعظم عمران نے انتخابات سے قبل اور الیکشن کے فوری بعد جو وعدے کیے تھے ان میں ابھی تک شاید ہی کوئی وعدہ پورا ہوا ہو جبکہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ ایفا ہونے کا دور دور تک کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق رپورٹ کے مطابق پاکستان بیروزگار افراد کی تعداد اب 38 لاکھ 50 ہزار ہوگئی ہے۔ صرف گزشتہ ڈھائی سال میں بیروزگاروں کی تعداد میں ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ رہی بات 50 لاکھ گھروں کو دینے کی اس پر پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے تحت بطور قرض رقم فراہم کرکے لوگوں کو اپنا گھر بنانے کے پروگرام پر عمل شروع کیا جاچکا ہے تاہم اس پروگرام کے ذریعے بھی آئندہ باقی ڈھائی سال کے دوران ہدف کے مطابق عمل درآمد ناممکن نظر آتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کم کرنے اور پنجاب و سندھ پولیس میں اصلاحات لانے کے وعدے ہوا ہوگئے۔ یہ وعدے وہ تھے جن پر پہلے سے شک تھا کہ یہ پورے نہیں کیے جاسکیں گے سو ایسا ہی ہورہا ہے۔ تمام تشویش ناک صورتحال کے باوجود وزیرِاعظم عمران خان کے چہرے پر اہداف کی تکمیل کی توقعات کا اطمینان کم ازکم مایوس قوم کو تسلی دینے کے مساوی تو ہے اس لیے اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوام مایوس ہیں تو کیا ملک کی ترقی کے بارے میں وزیراعظم عمران خان تو امید سے ہیں۔ اللہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے وزیراعظم کی توقعات کو پورا کرے۔ آمین