ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی نااہلی

438

پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کے نت نئے طریقے متعارف کرائے جاتے ہیں کہ دنیا بھی چکرا جائے۔ اس گورکھ دھندے کا حصہ رہنے والے بھی اسے بروقت سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ این اے 75 ڈسکہ سیالکوٹ میں ووٹ اور بیلٹ بکس چوری نہیں ہوئے بلکہ الیکشن کمیشن کا عملہ ہی چوری ہوگیا یا غائب ہوگیا۔ نااہلی الیکشن کی اور سزا انتخاب لڑنے والوں کو یوں دی گئی کہ نتیجہ روک لیا گیا۔ اب جو چاہیں کرلیں۔ الیکشن کمیشن کو اب تیار شدہ نتیجہ دینے میں آسانی ہوجائے گی۔ الیکشن کمیشن نے اعلان تو یہی کیا ہے کہ 20 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں ردوبدل کا خدشہ ہے۔ مکمل انکوائری کے بغیر نتائج جاری کرنا ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے مسئلے کی ذمے داری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں پر ڈال دی ہے اور کہا ہے کہ یہ ان کی کمزوری سے ہوا۔ لیکن الیکشن کمیشن بتائے کہ اس کے علم میں کیوں نہیں تھا کہ عملہ ہی غائب ہے۔ مسلم لیگ (ن) والے اسے پہلا موقع سمجھ رہے ہیں لیکن کراچی سے پارہ چنار تک کشمیر سے بلوچستان تک یہ عمل بارہا ہوتا آیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا عملہ کسی کے ہاتھوں یرغمال ہوتا ہے اس لیے وہ کہیں غائب ہوجاتا ہے۔ بیلٹ بکس، باکس کا لاک، بیلٹ پیپرز کی بک، انمٹ سیاہی، فارم 45 اور دیگر اشیا میں سے اکثر غائب ہوتی ہیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نچلی یا اوپری سطح تک بدعنوانی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں، ملک خطرناک سیاسی تقسیم کے دوراہے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ الیکشن کمیشن کی نااہلی کا ثبوت ہے اور سراج الحق کا کہنا بالکل بجا ہے اگر الیکشن کمیشن چند حلقوں میں پرامن انتخاب نہیں کراسکتا تو یہ عام انتخابات کرانے کا اہل ہی نہیں ہے۔