فرانس کو صدر علوی کا انتباہ ـ اداریہ

933

پاکستان اور ختم نبوت کے پروانے لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ دین پر پوری طرح عمل نہ کرنے والے مسلمان بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد سے بے نیاز مسلمان بھی اپنے پیارے نبیؐ کی عصمت اور عظمت کے لیے حقیقی معنوں میں جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

لہٰذا کوئی حکمران اپنے عوام کی عظیم اکثریت کے جذبات کے برخلاف زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا۔ تحریک انصاف کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے اس وقت سے ختم نبوت کے معاملے پر مشتبہ اقدامات اور حرکات کا ظہور ہورہا ہے۔ اس دور میں توہین رسالت کرنے والوں کو بھی شہہ ملی ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا کی آڑ لی جاتی رہی لیکن توہین رسالت کے مجرموں کو سزائے موت اور ان کے خلاف قانونی کارروائی میں رکاوٹ ضرور آئی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب اپوزیشن حکومت کے خلاف میدان میں ہے۔ صدر مملکت کے خلاف سینیٹ میں مواخذے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے عالمی کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ فرانسیسی قیادت مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کے طرز عمل سے باز رہے۔ صدر علوی نے فرانسیسی حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ انتشار اور تعصب کو جنم دینے کے بجائے عوام کو متحد رکھنے کے اقدامات کرے۔ اس کی حکومت کی قانون سازی اقوام متحدہ کے چارٹر اور یورپی معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کی روح کے منافی ہے۔ یہاں پہنچ کر صدر مملکت نے وہ بات کی جس کا انہوں نے حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اگرچہ نام وزیراعظم کا لیا کہ وزیراعظم اقوام متحدہ کے اجلاس میں واضح طور پر اعلان کرچکے ہیں کہ ناموس رسالت کے معاملے پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قانون سازی پر بھی توجہ دلائی جہاں قوانین تبدیل کرکے اقلیتوں کے خلاف صورت حال ابتر بنائی جارہی ہے۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں عالمی برادری کو بجا طور پر توجہ دلائی کہ ہم ناموس رسالت پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ اصل بات بھی یہی ہے کہ دنیا بھر میں آزادی اظہار کے نام پر انبیا اور مقدس ہستیوں کی توہین کی جارہی ہے، فرانس میں کبھی اس کو آزادی اظہار کے نام پر تحفظ دیا جاتا ہے اور کبھی مسلمان خواتین کے اسکارف اور نقاب کو دہشت گردی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ اس وقت سارا سیکولرازم کہیں دفن ہوجاتا ہے۔ صدر مملکت نے فرانسیسی قیادت کو بروقت اور درست طریقے سے توجہ دلائی ہے لیکن اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ فرانس یا انتہا پسندی کو فروغ دینے والے ممالک اپنی اصلاح کرلیں۔

معاملہ فرانس کا بھی نہیں دوسرے ممالک میں بھی مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں۔ میانمار میں حکمران اسے اپنا حق قرار دیتے ہیں۔ بھارت میں مذہب اور تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عارف علوی نے جس جانب نشاندہی کی ہے کہ یورپی معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کی روح کے منافی ہے تو اب یہ سماجی ہم آہنگی یورپ کے آئین اور کتابوں میں رہ گئی ہے۔ اب اس کی روح پرواز کرچکی ہے۔ اخلاقی اعتبار سے یورپ کا حال یہ ہے کہ اس یورپی یونین کے اپنے سروے کے مطابق یورپ سماجی تشدد میں دنیا بھر سے آگے نکل گیا ہے۔ یورپی یونین میں ہونے والے حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال 2 کروڑ 20 لاکھ انسانوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ 11 کروڑ افراد کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین کی صورت حال ابتر ہے۔ مغرب کو افغانستان میں عورت کی کار ڈرائیونگ اور یونیورسٹی تعلیم کی فکر ہے۔ امریکا کو سعودی عرب میں عورت کی آزادی کی فکر ہے، لیکن یورپ میں عورت کو جس طرح رسوا کیا جاتا ہے اس کو مساوی حقوق وہ خود نہیں دیتے اس کی مثال کسی مسلمان ملک میں نہیں ملے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یورپ میں سب اچھا ہے لیکن ان کے اپنے ادارہ بنیادی حقوق کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں کئی قسم کے جرائم کی اصل شرح بیان ہی نہیں کی جاتی۔ جس معاشرے کا حال یہ ہو وہ بھلا مسلمانوں اور ان کے پیغمبروں کی ناموس کا کیا خیال رکھے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر عارف علوی تمام یورپ اور مغرب کو پیغام دیتے کہ اپنے ملکوں میں ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے ایک فلاحی معاشرے کے لیے اسلام کے اصولوں کو اپنالیا جائے۔ یہ کہنے میں بس مسئلہ یہ تھا کہ سامنے سے جواب یہ نہ آجائے کہ تم تو اسلامی ملک ہو ریاست مدینہ کے دعویدار ہو تو پھر لوگوں کو لاپتا کیوں کرتے ہو، ناانصافی کیوں کرتے ہو، بے ایمانی کیوں کرتے ہو۔ لیکن جس طرح کے حکمران ہیں ان کے ہوتے ہوئے صدر عارف علوی نے جتنی بات کردی وہ بھی مناسب ہے۔ یورپ کو پیغام تو پہنچ گیا کہ مسلمان ناموس رسالتؐ پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے اور یورپ خصوصاً فرانس اور ہالینڈ غلط روش پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی اصلاح نہٰں کی تو طویل عرصے تک اپنی اس غلط پالیسی کا خمیازہ انہیں ہی بھگتنا پڑے گا۔ کیوں کہ جتنی خرابیاں ہوں گی ان کے اپنے معاشرے میں ہوں گی جیسا کہ امریکا بھگت رہا ہے۔ پوری امت مسلمہ کو اس معاملے میں مضبوط آواز اٹھانی چاہیے۔