سینیٹ میں صدرعلوی کیخلاف مواخذے کی گونج

384

اسلام آباد(صباح نیوز) متحدہ حزب اختلاف نے سینیٹ انتخابات سے متعلق آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے صدر عارف علوی کے پارلیمنٹ میں مواخذے کا مطالبہ کردیا، حکومت کی طرف سے واضح کیا گیا کہ عدم اعتماد کی تحریک یا مواخذے کی قرارداد ہربار ناکام ہوگی، ایوان بالا میں معاملے پر اپوزیشن کی تحریک کو چیئرمین سینیٹ نے نمٹا دیا ہے ۔ ہفتے کو ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہوا۔ اپوزیشن جماعتوں کی 218 قاعدہ کے تحت یہ تحریک پیش کی گئی کہ یہ ایوان بے مثال اور متنازع صدارتی آرڈیننس جو بدنیتی سے نافذ کیا گیا ہے ،سینیٹ کے انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے جوکہ پاکستان کے دستور کے تحت انتخاب ہے۔ جس کی وجہ سے سینیٹ انتخابات کا عمل متنازع ہو جائے گا زیر بحث لایا جائے۔ سابق چیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہاکہ چیئرمین سینیٹ کی رولنگ موجود ہے کہ سینیٹ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے پر پہلی نشست پر آرڈیننس پیش کیاجائے گا، رولنگ سے انحراف کیا گیا ۔ سینیٹ ہول کی سفارشات کو خاطر میں نہیں رکھا گیا۔ ہول کمیٹی نے کہا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بارے میں دونوں ایوانوں کی کمیٹی قائم ہوگی۔ حکومت پہلے اس معاملے پر اکتوبر 2020ء میں بل لائی جو قائمہ کمیٹی میں زیر التوا رہا۔ بعدازاں کابینہ نے صدر کو ریفرنس کا مشورہ دے دیااور جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس جاری تھے وزیراعظم نے صدر سے وہ اجلاس ملتوی کرائے اور آرڈیننس جاری کروا یا۔ آرڈیننس آئین کی شق 89 کی خلاف ورزی ہے ،آرڈیننس ضروری تقاضوں کے لیے جاری کیا جاتا ہے جبکہ حکومت پہلے سے تاک لگائے بیٹھی تھی یہ عارضی قانون سازی ہوتی ہے یہ 120دنوں کے لیے ہوتا ہے آرڈیننس نہ پیش ہونے پر ارکان کا عدم منظوری کی قرارداد لانے کا حق مجروح کیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے تحت انتخابات ہوگئے اور یہ قانون بھی نہ بنا اور آرڈیننس کی مدت پوری ہوگئی تو سینیٹ کے انتخابات پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟۔ ایسی صورتحال میں تو متنازع معاملہ بن جائیگا اور رٹ پٹیشن کا فلڈ گیٹ کھل جائے گا۔ صدر کو اس بات کا علم تھا کہ ایوان میں آئینی ترمیم موجودہے ریفرنس بھی جاچکا ہے پھر بھی آرڈیننس جاری کردیا اور یہ صدر کے مواخذے کے لیے کافی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ صدر نے سینیٹ انتخابات، اداروں ، پارلیمان، عدالت عظمیٰ کو حکومت کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ان کا مواخذہ ضروری ہے۔ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہاکہ آرڈیننس نئی بات نہیںہے اگر اتنا ہی اعتراض ہے تو آئیں آئین سے شق 89کو نکال دیتے ہیں یہ عدالتی معاملہ ہے اور متوازی عدالت لگا کر تجاوز کرنے کی کوشش نہ کی جائے عدالت کا فیصلہ ابھی آنا ہے ۔صدر نے آئینی شق 186 کے تحت ریفرنس بھیجا اور اس قسم کے ریفرنس ارسال کرنے کی مثال موجود ہے ،اپوزیشن مواخذے کے لیے سارے ذرائع اختیار کرکے لانا چاہتے ہیں تو ہم خیر مقدم کریں گے بھاگیں گے نہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد نے بھی صدر پاکستان کے مواخذے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ انتخابات اور سیاست میں پیسے کے استعمال کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بننا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو تمام ثبوت پیش کرنے چاہئیں۔3سال ہوگئے ہیں حکمران جماعت میں کہاں داخلی انتخاب ہوا ہے۔ مافیاز کو نوازا گیا ارب پتی ، سرمایہ دار، پیراشوٹر، موسمی پرندے، اے ٹی ایم والے آتے رہے اور نوازے جاتے رہے۔ تمام سیاسی جماعتیں بات کی پابند ہونی چاہیے کہ وہ نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دیں۔ سیاسی اور انتخابی اصلاحات کے لیے جامع آئینی پیکج آنا چاہیے۔ تمام دروازے بند ہونے چاہئیں ان ایوانوں کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔ سرمایہ کار آتا ہے اس سے کہیں گنا زیادہ کماتا ہے ۔ طلبہ یونین سیاسی نرسریاں ہیں۔ پی ٹی آئی کے منشور میں شامل ہے مگر 3 سال ہوگئے ہیں کوئی پیشرفت نہ کرسکے۔