سینیٹ انتخابات کی گہما گہمی – میاں منیر احمد

696

سینیٹ انتخابات، سرکاری ملازمین کا احتجاج اسلام آباد کے حوالے سے دو اہم موضوعات ہیں، مگر وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ ’’ہمارے پاس آنسو گیس پڑی ہوئی تھی، سرکاری ملازمین پر چلا کر ٹیسٹنگ کی ہے‘‘ سفاکی اور حساسیت کی تمام حدیں پار کرگیا ہے، اور یہ بیان اعلیٰ عدلیہ کے ازخود نوٹس کے لیے بہترین مواد ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ آئین کی محافظ عدالت ہے، اور آئین میں پُرامن احتجاج کا حق تسلیم کیا گیا ہے،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو حکومت سے زیادہ سفاک حکومت نہیں گزری، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کو بھی اسی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے، مگر ان دونوں ادوار میں کسی وزیر داخلہ کو ایسا بیان دینے کی جرأت نہیں ہوئی، یہ اعزاز تحریک انصاف کی حکومت کے حصے میں آیا، اور وزیراعظم کی خاموشی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ جو کچھ کہا گیا اس سے انہیں اتفاق ہے۔ عین ممکن ہے کل کوئی یہ کہہ دے کہ گولیاں پڑی ہوئی تھیں، ٹیسٹ کرنے کے لیے عوام پر چلادیں۔ شیخ رشید احمد ایک سیاسی کارکن ہیں، مگر جو شخص بھی انہیں قریب سے جانتا ہے اس کی رائے یہی ہوگی کہ اقتدار کے دنوں میں ریشم کے قالین پر چلتے ہوئے ان کے پائوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں، اور اقتدار سے رخصت ہوجانے پر انہیں راولپنڈی کے ریڑھی بان پھر سے یاد آجاتے ہیں۔

اسلام آباد میں ان دنوں سینیٹ انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارے ہیں، اس اتحاد میں گیارہ جماعتیں شامل ہیں، مگر سینیٹ انتخابات کے لیے عملاً پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ہی اس اتحاد کی قابلِ ذکر جماعتیں ہیں جن کے امیدوار اس وقت سینیٹ انتخابات کے لیے میدان میں موجود ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں اَپ سیٹ اگر ہوا تو وہ بعد میں ہوگا، سردست ٹکٹوں کی تقسیم میں ہر بڑی سیاسی جماعت میں اَپ سیٹ ہوا ہے۔ جب کہ اس کا بیانیہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں بہت پیسہ چلتا ہے، لہٰذا ووٹر کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ اسے جاری ہونے والا بیلٹ پیپر پارٹی سربراہ چاہے تو دیکھ سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کو اس بات کا پابند بنانے کے لیے صدر نے آرڈیننس بھی جاری کیا ہے، مگر اسی مقصد کے لیے ایک صدارتی ریفرنس بھی سپریم کورٹ بھیجا گیا جہاں اس کی سماعت جاری ہے، مگر عدلیہ کا فیصلہ آنے سے قبل ہی الیکشن کمیشن سینیٹ انتخابات کے لیے شیڈول جاری کرچکا ہے، یوں امیدواروں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کا پہلا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ سینیٹ کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم میں تحریک انصاف میں بہت زیادہ ردعمل آیا ہے کہ صوبے سے پارٹی قیادت نے پہلے عبدالقادر کو ٹکٹ دیا، پھر واپس لے لیا، مگر وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتر آئے ہیں۔ یہ چیئرمین سینیٹ کے دوست ہیں۔

تحریک انصاف میں سب سے زیادہ ردعمل سندھ اور بلوچستان میں ہوا، اسی لیے وزیراعظم کو اپنے امیدوار عبدالقادر کا ٹکٹ واپس لینا پڑا، اُن کی جگہ اب ظہور آغا کو ٹکٹ دیاگیا، مگر ان کے بارے میں سب سے بڑا اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ ان کی تو پارٹی رکنیت ہی ڈسپلن توڑنے کی وجہ سے معطل ہے۔ تحریک انصاف نے اسلام آباد سے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو ٹکٹ دیا ہے، اور خواتین نشست کے لیے فوزیہ ارشد امیدوار ہیں۔ پی ڈی ایم کی جانب سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ان کے مدمقابل ہوں گے۔ دونوں امیدواروں کے مابین مقابلے کا نتیجہ ثابت کردے گا کہ حکومت کہاں کھڑی ہے؟ ان دونوں کے لیے قومی اسمبلی الیکٹورل کالج ہے، قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے کُل ووٹ177 ہیں، جبکہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں153 ووٹ ہیں، منظور پشتین کی پی ٹی ایم کے پاس 4 ووٹ ہیں، یہ چار ووٹ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ کس کا ساتھ دینا ہے۔

پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی بڑے تگڑے امیدوار ہیں، وہ ایک بار وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے علاوہ متعدد بار وفاقی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں اور ایک عام انتخابات میں انہوں نے حلقہ این اے114 سے نواز شریف کو بھی شکست دی ہوئی ہے۔ پارٹی کے علاوہ ان کا ذاتی ووٹ بینک بھی ہے، حکومتی اتحادی جی ڈی اے کے رہنما پیر پگارا کے خالہ زاد اور سمدھی بھی ہیں، انہیں کامیابی کے لیے پی ڈی ایم کے پورے ووٹوں کے علاوہ مزید 21 ووٹ چاہئیں، یہ ووٹ کہاں سے آئیں گے؟ کچھ خاص بات ضرور ہے کہ ووٹوں کے اس فرق کے باوجود پیپلزپارٹی یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے امیدوار بناکر کسی کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے سینیٹ کے حالیہ انتخاب میں اپنے سپر اسٹار امیدوار راجا محمد ظفرالحق کو ان کی اپنی درخواست پر ڈراپ کردیا ہے، اُن کی جگہ اُن کے صاحب زادے راجا محمد علی کے لیے ٹکٹ جاری ہوسکتا تھا مگر مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس معاملے میں خاموش رہی۔ راجا محمد ظفرالحق کو ٹکٹ نہ ملنا، یا اُن کی جانب سے ٹکٹ کے لیے آمادگی کا اظہار نہ ہونا بالکل اسی طرح معمّا ہے جس طرح چودھری نثار علی خان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، ان دونوں کا معمّا ایک جیسا ہے مگر کیمسٹری مختلف ہے۔ چودھری نثار علی خان نوازشریف کے ساتھ کھلی مجلس میں بات کرتے تھے، جبکہ راجا محمد ظفرالحق نے ہمیشہ خاموش رہ کر حکمت سے بڑا کام کیا۔ چودھری نثار علی خان پنجاب اسمبلی میں آزاد رکن منتخب ہوئے، مگر ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک حلف نہیں لیا ہے، عمران خان نے انہیں پارٹی میں شامل ہونے کی بہت پیش کش کی، حتیٰ کہ ان کے روایتی حریف غلام سرور خان سے بھی عمران خان نے کہہ دیا تھا کہ وہ ایک حلقہ چودھری نثار علی خان کے لیے خالی کردیں۔ غلام سرور خان تو حلقہ خالی کرنے پر آمادہ تھے مگر چودھری نثار علی خان کسی کا مارا ہوا شکار کھانے کو تیار نہ ہوئے۔ وہ ابھی تک خاموش تو ہیں مگرمتحرک بھی ہیں۔ ان سے گزشتہ ہفتے مسلم لیگ(ن) کے سردار ایاز صادق، رانا تنویر حسین، خواجہ سعد رفیق اور روحیل اصغر نے ملاقات کی ہے، مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف نے بھی اپنے ارکانِ اسمبلی سے ایک سوال پوچھا ہے کہ انہیں تبدیلی کی صورت میں چودھری نثار علی خان قبول ہیں یا چودھری پرویز الٰہی؟ یہ سوال شاید اس لیے پوچھا گیا ہے کہ پنجاب میں سینیٹ انتخابات کے بعد کچھ ہلچل ہوتی ہوئی معلوم ہورہی ہے، چند ہفتے قبل ملک کی ایک اعلیٰ ترین شخصیت سے کچھ سیاسی افراد کی ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے کہا کہ اگر وہ ملک میں وزیراعظم ہوتے تو کیا بزدار کو وزیراعلیٰ لگاتے؟ بہرحال اس وقت موضوع سینیٹ ہے جس میں مسلم لیگ(ن) نے پنجاب سے مشاہد اللہ خان، سعدیہ عباسی، اعظم تارڑ، پرویز رشید، سیف الملوک کھوکھر اور زاہد حامد کو ٹکٹ دیا ہے۔ زاہد حامد سے انتخابی اصلاحات کے بل کے معاملے پر تحریک لبیک کے دبائو پر کابینہ سے استعفیٰ لیا گیا تھا۔ تحریک انصاف نے پنجاب سے بیت المال کے ایم ڈی عون عباس بپی، سیف اللہ نیازی، اعجاز چودھری، علی ظفر اور ڈاکٹر زرقا کو ٹکٹ دیا ہے۔ سیف اللہ نیازی، وزیراعظم کے کزن ہیں۔ علی ظفر معروف وکیل ایس ایم ظفر کے صاحب زادے ہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان اصل مقابلہ پنجاب میں ہوگا۔

سینیٹ کے انتخابات میں دلچسپی اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ دولت کے بل بوتے پر ایوانِ بالا میں پہنچنے کی دوڑ میں ارب پتیوں سمیت اب پٹواری بھی شامل ہوگئے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے ایک ایسی خاتون کو بھی ٹکٹ جاری کیا ہے جن کے خاوند پر الزام ہے کہ وہ سرکاری زمین ناجائز طریقے سے مختلف لوگوں کے نام منتقل کرکے سرکاری خزانے کو55 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ ثمینہ زہری کو بلوچستان اسمبلی سے منتخب کرانے میں اہم کردار وزیراعلیٰ جام کمال کا ہے۔ سینیٹ کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں تحریک انصاف کے اپنے کارکن کہہ رہے ہیں کہ میرٹ پر ٹکٹ نہیں دیے گئے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی کے اندر ایک بڑا ردعمل موجود ہے، کے پی کے میں فیصل سلیم پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ پارٹی کارکنوں کے تحفظات ہیں کہ سیف اللہ ابڑو نیب زدہ ہیں اور فیصل واوڈا نااہلی سے بچنے کے لیے سینیٹر بننا چاہتے ہیں، جس کی تصدیق اسد عمر نے بھی کی ہے۔

تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات کے لیے بلوچستان سے عبدالقادر کو بھی ٹکٹ دیا تھا، لیکن پارٹی میں تنقید ہوئی تو تعمیراتی شعبے سے وابستہ بزنس ٹائیکون عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے لیا گیا، مگر وہ آزاد امید وار بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے لیے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کون ہیں؟ اور کس پارٹی سے ہیں؟ یہی صورتِ حال پنجاب میں ہے۔ یہاں وزیراعظم عمران خان نے ناراض رکن پنجاب اسمبلی خرم لغاری سے ملاقات کی۔ خرم لغاری نے ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ نہ دینے پر وزیراعلیٰ پنجاب کی شکایت کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خرم سہیل خان لغاری کو عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا، مگر انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، 50ہزار ووٹ لیے اور 17ہزار ووٹوں سے الیکشن جیتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم یوتھ کو دھرنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وقت آنے پر پیچھے پھینک دیا جاتا ہے، ہمیں ڈھائی سال میں 10کروڑ کے فنڈز دیے گئے جب کہ تونسہ شریف کو 77 ارب روپے کے فنڈز دیے گئے۔ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کا حلقہ ہے۔ فیصل واوڈا کو سینیٹ ٹکٹ دینے پر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عبدالشکور شاد اعتراض اٹھا چکے ہیں۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے اُس وقت وہ ترقیاتی فنڈ کو رشوت قرار دیتے تھے، مگر اب وہ خود اپنی پارٹی اور اتحادیوں کو ابھی تک فی رکن اسمبلی80,80 کروڑ روپے کے فنڈ دے چکے ہیں، پچاس کروڑ روپے فی حلقہ تو ابھی حال ہی میں دیے گئے ہیں۔ ملک کے سیاسی منظرنامے کی کتاب سینیٹ کے انتخابات تک یہی رہے گی، تاہم بعد میں ضرور صفحات پلٹ سکتے ہیں۔

سینیٹ انتخابات کے فوری بعد ملک میں بجٹ کی تیاری شروع ہوجائے گی۔ بجٹ میں بلاسود معیشت کی جانب کس قدر پیش رفت ہوگی اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سود کو قرآن حکیم میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت اسلامی دنیا ابھی تک اس حوالے سے کوئی واضح اور ٹھوس پالیسی نہیں اپنا سکی۔ اسلامی بینکنگ کو جس شکل میں متعارف کروایا گیا ہے اس پر بھی تمام مذہبی اور غیر مذہبی طبقات کا اجماع نہیں ہے۔ سیکڑوں تحقیقی مقالے آ چکے ہیں، مختلف اسلامی تنظیموں نے اس پر بہت سا کام کیا ہے جسے آگے بڑھایا جانا چاہیے، جسٹس (ر) وجیہ الدین کے ایک اہم فیصلے سے بھی رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ خیال ہے کہ چونکہ اب حکومت کے آخری دو سال شروع ہونے والے ہیں، ہوسکتا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ریلیف دیا جائے۔ حکومت نے کاروباری حلقے سے بجٹ تجاویز لینا شروع کردی ہیں، اور ان کا جائزہ لیا جارہا ہے، لیکن بجٹ سے قبل جس طرح بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، اس حساب سے تو ریلیف اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی ثابت ہوگا۔ بجٹ تجویز یہ ہے کہ ادویہ، غذائی اشیا سمیت ضروری اشیا پر ٹیکس چھوٹ دی جائے، صنعتی شعبے کے لیے ریلیف ہو، تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔ اس وقت پنجاب سول سیکرٹریٹ میں کام کرنے والوں کو 150فیصد ایگزیکٹو الائونس مل رہا ہے جبکہ اسلام آباد میں یہ صفر ہے۔ پنجاب میں سیکرٹریٹ الائونس 50 فیصد ہے جو Salary Rinningپر ہے، جبکہ اسلام آباد میں یہ الائونس BASIC SALARY پر ہے اور اس کی شرح بھی 20 فیصد ہے۔ پنجاب میں یوٹیلٹی الائونس 6ہزار سے 40 ہزار تک ہے، جس میں سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے گریڈ 1سے 7تک کا 6ہزار، گریڈ 12تک کا 10ہزار، 12سے گریڈ16 کا 14ہزار، سیکشن افسر کا 15ہزار، ڈپٹی سیکرٹری کا 20 ہزار، اور ایڈیشنل سیکرٹری کا 25ہزار یوٹیلٹی الائونس ہے۔ اس کے برعکس اسلام آباد میں سیکرٹریٹ ملازمین کو کوئی یوٹیلٹی الائونس ملتا ہی نہیں۔ سپریم کورٹ میں کام کرنے والے ڈرائیور کی تنخواہ 80 ہزار، اور سی ایس ایس کرکے گریڈ 17میں بھرتی ہوکر فیڈرل سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے کی تنخواہ 45ہزار ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین اور افسروں کے احتجاج کے بعد 25 فیصد اضافے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن یہ ایڈہاک ریلیف ہے، ملازمین کو 1990ء سے تنخواہوں کے اسکیلوں پر نظرثانی کا لالی پاپ دیا جارہا ہے، سیکرٹریٹ افسروں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ صوبوں کی طرز پر انہیں الائونس ملنے چاہئیں، یہی وجہ ہے کہ وفاق سے ٹرانسفر ہوکر پنجاب یا دیگر صوبوں میں تعینات ہونے والا کوئی افسر واپس اسلام آباد تعیناتی کو سزا تصور کرتا ہے۔

سرکاری ملازمین کے احتجاج کو حکومتِ وقت نے جس طرح ہینڈل کیا اُس پر آفرین کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے! حکومتیں ہر سال نئے بجٹ میں دس فی صد کے لگ بھگ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کردیتی تھیں جس سے ملازمین اور پنشنروں کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہوجاتی تھی۔ اس حکومت نے ملک کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ملازمین اور پنشنروں کو بجٹ میں درخورِ اعتنا نہ جانا، اور یہ بھی فرض کرلیا کہ یہ سلوک ملازمین ہضم کرلیں گے۔ دوسری طرف گرانی کا گراف مسلسل اوپر جاتا رہا، یہاں تک کہ برداشت سے باہر ہوگیا۔ آخرکار اسی حکومت کو جو دس فی صد اضافے کی روادار نہ تھی، پچیس فی صد اضافہ ماننا پڑا۔

راولپنڈی میں ملٹری اکائونٹس کے محکمے کے لیے جو ڈسپنسری مدتِ دراز سے قائم تھی، جس میں دو ڈاکٹر تعینات تھے اور ایمبولینس اور لیبارٹری تھی، اور جو ہزاروں ملازمین اور اُن کے خاندانوں کا سہارا تھی، ختم کردی گئی۔ وفاقی حکومت کے ملازمین کا سب سے بڑا اور سب سے دردناک مسئلہ رہائش کا ہے، وفاقی دارالحکومت میں سرکاری رہائش گاہ کا حصول کارِ دارد ہے۔ یہ ایک انتہائی دردناک داستان ہے۔ ملازمین درخواست دے کر سالہا سال انتظار کرتے ہیں، کچھ اسی انتظار میں ریٹائر ہوجاتے ہیں۔

ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہورہی ہے کہ پاکستان کی گرے لسٹ سے نکلنے کی راہیں ہموار ہونا شروع ہو گئی ہیں، امکان ہے کہ رواں ماہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تمام 27نکات پر واضح پیش رفت کرلی ہے اور تمام نکات پرپیش رفت سے متعلق رپورٹ بھجوا دی گئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے اینٹی منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیرر فنانسنگ میں بڑی پیش رفت کی گئی ہے اور ان شعبوں میں قانون سازی مکمل کرلی گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا ورچوئل اجلاس 22 فروری سے شروع ہوگا، جو 24فروری تک جاری رہے گا۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف پر وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تعاون حاصل ہے۔ فیٹف انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے سر سے بلیک لسٹ کی تلوار مکمل طور پر ہٹ چکی ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا ہے کہ پاکستان نے فیٹف ایکشن پلان پر شاندار پیش رفت کی ہے، 27 میں سے 21 نکات پر پاکستان کلیئر ہوچکا، بقیہ 6 کو بھی جزوی طور پر مکمل قرار دیا گیا ہے۔

(This article was first published in Friday Special)