ملکی معیشت … کس کا یقین کیجئے؟

418

وزیر اعظم عمران خاں نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے پاکستان کی تاریخ کے ریکارڈ 6 ہزار ارب روپے قرضے واپس کئے، معیشت آج مثبت سمت میں جا رہی ہے، ٹیکسٹائل کی صنعت بحال ہوئی، کورونا کے باوجود معیشت میں استحکام آ رہا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا بڑا اثاثہ ہیں، روشن ڈیجیٹل اکائونٹس نے ترسیلات زر کا 500 ملین ڈالر کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اتنے بڑے قرض کے بوجھ کے باوجود ہمارے تمام معاشی اعشاریے مثبت ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بھارت کی معیشت 10 فیصد منفی میں گئی ہے، برطانیہ میں 300 سال کے بعد اتنی بڑی کساد بازاری آئی، جب کہ تمام چیلنجز کے باوجود پاکستان کی معیشت آج مثبت سمت میں جا رہی ہے۔ میں 20 سال سے کہہ رہا ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ بیرون ملک پاکستانی ہیں اور کرکٹ کی وجہ سے میرا شروع ہی سے ان سے رابطہ تھا جب میں نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا تو سب سے زیادہ چندہ مجھے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں سے ملا، تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارا بہت بڑا اثاثہ باہر بیٹھا ہے۔ جب سے ہم حکومت میں آئے ہیں سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ تھا جس میں ملک میں جو ڈالرز آ رہے تھے وہ کم تھے اور جو ڈالرز باہر جا رہے تھے وہ بہت زیادہ تھے، دونوں میں بہت بڑا فرق اور کرنٹ اکائونٹ کا ریکارڈ 20 ارب ڈالرز کا خسارہ تھا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت کو نہیں ملا۔ جناب عمران خاں نے اپنے اس خطاب میں ملکی معیشت کی جو تصویر کشی کی ہے اس کی روشنی میں یہ خوش کن تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر نہایت تیزی سے گامزن ہے، یہاں کی معیشت کے تمام رجحانات مثبت ہیں، برآمدات بڑھ رہی ہیں، درآمدات میں کمی آ رہی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں ڈالروں کی ریل پیل ہے، صورت حال کا ایک روشن اور اطمینان بخش پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشی اشاریئے بھارت ہی نہیں، برطانیہ کے مقابلہ میں بھی بہت بہتر ہیں۔ اللہ کرے جناب وزیر اعظم کے یہ تمام ارشادات سو فیصد درست ہوں مگر معیشت کی ایک تصویر خود اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی دکھائی ہے جس نے ایک روز قبل ہی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات 115 ارب 76 کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اقتدار کے سوا دو سال کے عرصہ میں بیرونی قرضوں میں 19 ارب 64 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو بیرونی قرضوں میں مجموعی طور پر 20.4 فیصد بنتا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق ستمبر 2018ء سے دسمبر 2020ء تک بیرونی ذرائع سے مجموعی طور پر 14 ارب 22 کروڑ ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے۔ اس دوران حکومتی اداروں اور کارپوریشنوں نے بھی 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کے نئے قرضے لے لیے جب کہ اس دوران نجی شعبے کے بیرونی قرضے ایک ارب 64 کروڑ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق سوا دو سال کے دوران حکومت نئے بیرونی قرضوں پر مجموعی طور پر 6 ارب 83 کروڑ ڈالر سود ادا کیا۔ اگر نئے قرضوں کی رقم سے اس کو نکال بھی دیا جائے تو بھی موجودہ حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں میں 12 ارب 81 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اب عقل گم ہے کہ کس کا یقین کیجئے کس کا نہ کیجئے۔ جناب وزیر اعظم کے ارشادات درست ہیں یا اسٹیٹ بنک کے اعداد و شمار حقیقت پر مبنی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خاں کے وزیر خزانہ جناب عبدالحفیظ شیخ نے بھی اگلے روز بغلیں بجاتے ہوئے نہایت مسرت سے قوم کو یہ خوش خبری سنائی ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف سے پچاس کروڑ ڈالر قرض کی قسط ملنے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں قرض کے حصول میں حائل یہ رکاوٹیں کس طرح دور ہوئیں اس کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کر لی ہیں، بجلی کے نرخ بڑھانے پر ڈیڈ لاک بھی ختم ہو گیا ہے اور ادارہ جاتی اصلاحات پر آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کی یقین دہانی بھی ہم نے کروا دی ہے۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس، (ایف اے ٹی ایف) کے منصوبہ اور شرائط کو بھی تسلیم کرتے ہوئے ہم نے ان کی پابندی کا بھی یقین دلایا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو 39 مہینوں کے پروگرام کے تحت چھ ارب ڈالر کا قرض دینے کا جو اعلان کیا تھا اس کی پچاس کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کی ادائیگی پر آمادگی کا اظہار کر دیا گیا ہے تاہم اگر کوئی شرط منوانا رہ گئی ہو تو اس کے لیے ان پچاس کروڑ کی ادائیگی سے قبل آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی حتمی منظوری ابھی باقی ہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ آئی ایم ایف عالمی ساہو کار ہے جس کا کام ہی قرض دینا ہے سوال یہ ہے کہ وہ کون سا ساہو کار ہو گا جس کی تمام شرائط تسلیم کر لی جائیں، تو وہ قرض دینے سے انکار کرے۔ ہم نے اپنی تمام معیشت آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دے رکھی ہے ہماری تمام معاشی بلکہ سماجی پالیسیاں بھی اس کی ہدایات کے تابع تشکیل پاتی ہیں، ایسے میں وزیر خزانہ کا قرض کی نصف ارب ڈالر کی اگلی قسط ملنے کے وعدہ پر بغلیں بجانے کا جواز سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ جہاں تک وزیر اعظم کے خطاب اور دعوئوں کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بقول، ڈھیروں ڈالر بیرون ملک سے آنے کے باوجود ملک میں ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح تبادلہ پر دستیاب ہے، پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابل کم ترین سطح پر ہے جس کا براہ راست اثر ملک کے غریب اور عام آدمی پر یہ پڑا ہے جس کے لیے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے، ڈالر مہنگا ہونے سے ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، حکومت خود آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس جواز پر اضافہ کر دیتی ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے اس کی قیمت بڑھانا مجبوری ہے جب تیل مہنگا ہو گا تو اس کا اثر لامحالہ روز مرہ استعمال کی تمام اشیاء کی قیمتوں کو متاثر کرے گا۔ خوردنی تیل، اور بے شمار دیگر اشیاء بھی ہم بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں حتیٰ کہ ستر فیصد دالیں ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود باہر سے منگواتے ہیں بلکہ موجودہ حکومت سے قبل گندم اور چینی جیسی جو اشیاء ملک میں وافر دستیاب تھیں، اب ناقص پالیسیوں کے باعث بیرون ملک سے درآمدکرنا پڑ رہی ہیں مگر جناب وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ ہماری برآمدات نہایت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ برصغیر میں بھارت اور بنگلہ دیش پہلے ہم سے آگے تھے مگر اب ہم نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے خاص طور پر ٹیکسٹائل کا شعبہ اس قدر تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے کہ آج فیصل آباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں جو نئی ٹیکسٹائل ملیں لگ رہی ہیں ان کے لیے ہنر مند محنت کش دستیاب نہیں ہو رہے۔ جناب وزیر اعظم کے دعوئوں کو جھٹلانا مقصود نہیں مگر کیا کیا جائے کہ زمینی حقائق اور خود حکومتی اداروں کے اعداد و شمار ان کے ارشادات کی تائید نہیں کرتے، وہ جو تصویر اپنی تقریروں میں سامعین کو دکھاتے ہیں، زمین پر اس سے بالکل مختلف صورت حال کا قوم کو سامنا ہے، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری کے سبب لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں جس کا مداوا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس کے لیے جناب وزیر اعظم کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے جس کے اثرات عام آدمی کی زندگی میں خوشی اور خوش حالی کی صورت میں دکھائی دیں، محض خوش کن تقریروں اور خالی خولی باتوں سے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرا جا سکتا…!!!