ؒافکار سید ابوالاعلیٰ مودودی

302

آلات موسیقی
حدیث میں آتا ہے نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’میں آلات موسیقی کو توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ اب یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ جو نبی اس کام کے لیے بھیجا گیا ہو اس کے پیرو انہی آلات کو بنانے اور بیچنے اور بجانے کے لیے اپنی قوتیں استعمال کریں۔
٭…٭…٭
شادی بیاہ ہو یا کچھ اور، باجے بجانا کسی حال میں درست نہیں۔ حدیث میں جس حد تک اجازت پائی جاتی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ شادی اور عید کے موقع پر دف کے ساتھ کچھ گا بجا لیا جائے۔
٭…٭…٭
یہ محض ایمان کی کمزوری ہے کہ آدمی اپنے دوستوں اور عزیزوں کی ناراضگی سے ڈر کر ایک ناجائز کام میں حصہ لے۔ رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ جو لوگ اپنا حشر چاہتے ہوں ان کے لیے تو یہی مناسب ہے کہ ایسے لوگوں سے ربط ضبط نہ رکھیں جنہیں احکام شریعت کی پروا نہیں۔ ورنہ جن کو ان لوگوں کے تعلقات زیادہ عزیز ہیں، انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فاجرین اور صالحین کے ساتھ بیک وقت تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔ جب تمہاری دنیا فاجروں کے ساتھ ہے۔ تو آخرت میں بھی انہیں کا ساتھ نصیب ہوگا۔
٭…٭…٭
یہ خیال رہے کہ مجلس نکاح میں جبکہ ایجاب و قبول ہو رہا ہو اور منکرات و فواحش کی نمائش نہ ہو رہی ہو شرکت کرنے میں مضائقہ نہیں، بلکہ اولیٰ یہ ہے کہ شرکت کی جائے اور جب موسیقی شروع ہو تو نہایت نرمی و شرافت کے ساتھ یہ کہہ کو دوستوں اور عزیزوں سے رخصت چاہی جائے کہ جہاں تک تمہارے جائز کاموں کا تعلق ہے ہم تمہاری مسرت میں شریک ہیں اور جہاں تک ناجائز کاموں کا تعلق ہے۔ ہم ان میں نہ خود شریک ہونا پسند کرتے ہیں نہ یہ گوارا کرتے ہیں کہ تم ان خرابیوں میں مبتلا ہو۔
٭…٭…٭
یہ محض غلط ہے کہ دف کے سوا اس زمانے میں اور کوئی دوسرا آلۂ موسیقی نہ تھا۔ ایران اور روم اور مصر کی تمدنی تاریخ اور خود عرب جاہلیت کی تمدنی تاریخ سے جو شخص جاہل محض ہو وہی یہ بات کہہ سکتا ہے۔ متعدد باجوں کے نام تو خود اشعار جاہلیت میں ملتے ہیں۔
٭…٭…٭
دف کا نام اگر آلات موسیقی میں شامل ہو بھی تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ شادی بیاہ اور عید کے موقع پر نبی کریمؐ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور یہ زیادہ سے زیادہ حد ہے جہاں تک، آدمی جاسکتا ہے۔ اس آخری حد کو جو شخص نقطۂ آغاز بنانا چاہتا ہو اس کو آخر کس نے مجبور کیا ہے کہ خواہ مخواہ اس نبیؐ کے پیروں میں اپنا نام لکھوائے جو آلات موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟
(ترجمان القرآن، جنوری، فروری 44ء)