لاپتا افراد کا مسئلہ

229

عدالتِ عالیہ سندھ نے وفاقی حکومت سے لاپتا افراد کے معاملے پر تازہ رپورٹ اور ملک کے حراستی مراکز میں قید شہریوں کی فہرست طلب کرلی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ اگر رپورٹ نہ آئی تو وفاقی سیکرٹری داخلہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ عدالت کے معزز جج نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے۔ عدالتِ عالیہ سندھ میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ورثا کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کئی روز سے جاری ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہوگیا ہے۔ ادھر بلوچستان کے لاپتا افراد کے ورثا اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے ہوئے فریاد کناں ہیں۔ لاپتا افراد کے اہل خانہ سے یکجہتی کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز ملاقات کے لیے ان کے کیمپ پہنچ گئیں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ لاپتا افراد کے لواحقین کو بتایا جائے کہ ان کے پیارے کہاں ہیں۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور شہریوں کو تحفظ دینا اس کا فرض ہے۔ انہوں نے عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں آئیں اور لوگوں سے بات کریں۔ اسلام آباد میں لاپتا افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار سے پہلے بڑے بڑے بیانات دیے جاتے ہیں لیکن اقتدار ملتے ہی انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں اور مجبوریاں بھی سامنے آجاتی ہیں۔ میرا اتنا سا سوال ہے کہ کیا حکمرانوں کی مجبوریاں فرض سے بڑی ہوتی ہیں۔ آپ کا اتنا فرض تو بنتا ہے کہ یہ لاپتا افراد کے لواحقین کو بتادیں کہ ان کے پیارے کہاں ہیں۔ لاپتا افراد کے بچوں کو پتا نہیں کہ وہ یتیم ہیں یا ان کے والد حیات ہیں۔ وزیراعظم کا دفتر اس جگہ سے صرف پانچ منٹ کی مسافت پر ہے اور یہ لوگ ایک ہفتے سے سردی میں بے سروسامان کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ حکمران روز محشر کو یاد رکھیں آپ نے پروردگار کو جواب دینا ہے۔ اس لیے عمران خان آئیں اور ان کی فریاد سنیں۔لاپتا افراد کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ خاص طور پر وزیراعظم عمران خان اس مسئلے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں ہے۔ اس کا آغاز اسلام آباد سے ہوا جب ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے جنرل پرویز مشرف کے دور سے اس ظلم اور درندگی کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ وزیراعظم عمران خان اس وقت آمنہ مسعود جنجوعہ کے احتجاج میں شریک بھی ہوتے تھے۔ عمران خان نے ہی نو مسلم برطانوی صحافی ایوان رڈلے کے ہمراہ پریس کانفرنس کرکے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے افغانستان کی ایک جیل میں قیدی ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغوا اور امریکی جیل میں قید لاپتا افراد کے مسئلے کا ہی ایک حصہ ہے۔ عدالت عالیہ سندھ کی سماعت سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی نگرانی میں حراستی مراکز قائم ہیں جہاں لاپتا افراد کو قید کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ ایک دن کا نہیں ہے، اس ظلم کا آغاز جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور سے ہوا ہے، جو شاخسانہ ہے امریکی ’’وار آف ٹیرر‘‘ میں شراکت داری کا جس سے ریاستی اداروں کو ماورائے آئین وقانون اختیارات مل گئیہیں۔ اس کے بعد سے کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ آصف زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، اس کے بعد میاں نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی اور اب عمران خان کی حکومت قائم ہے لیکن ہر حکومت کی پالیسی ایک ہی رہی ہے۔ جب یہ مسئلہ سنگین ہوگیا تو عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی قائم ہوا جو ابھی تک برقرار ہے، لیکن لاپتا افراد کا مسئلہ ہے کہ حل ہونے میں نہیں آتا۔ یہ سوال محترمہ مریم نواز شریف سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ اس دوران میں آپ کی حکومت بھی رہی، لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ آپ نے جن ’’مجبوریوں‘‘ کا طعنہ عمران خان کو دیا ہے کیا وہی مجبوری آپ کی حکومت کو بھی درپیش رہی ہے۔ البتہ مریم نواز کا عمران خان سے شکوہ درست ہے کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جب یہ مسئلہ عدالتوں میں جاتا ہے تو عدلیہ کے معزز جج صاحبان لاپتا افراد کے اہل خانہ کے آہ و بکا سے متاثر ہو کر احکامات جاری کرتے ہیں جس طرح سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج نے وفاقی حکومت کو ہدایت دی ہے اور سخت زبان میں ہدایت جاری کی ہے۔ ایسی ہدایات اس سے پہلے بھی جاری کی جاتی رہی ہیں جس سے پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور جابرانہ و استبدادی طرز حکمرانی پر قوم کی توجہ مبذول کرائی جاتی رہی ہے۔ لیکن اس ظلم کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جن مسائل پر قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے ان میں لاپتا افراد کے مسئلے کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ اول دن سے لاپتا افراد کے لواحقین کا یہ موقف رہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی غیر قانونی سرگرمی یا کسی جرم میں ملوث رہا ہے تو اسے عدالت میں ثبوت و شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے۔ ایسے متاثرین میں انیس اور بیس سال کے کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت نے انسانی حقوق کی پامالی کی ان وارداتوں پر توجہ نہیں دی ہے۔ عمران خان اس مسئلے سے پوری طرح آگاہ ہیں، لیکن ان کی طرف سے بھی خاموشی ایک المیہ ہے۔ یا مریم نواز کے کہنے کے مطابق ان کو بھی وہ ’’مجبوریاں‘‘ لاحق ہوگئی ہیں جو میاں نواز شریف کی حکومت کو لاحق تھیں۔ ہم بھی مریم کی اس بات کو دہراتے ہیں کہ حکمران اور مقتدر طبقات روز محشر کو یاد رکھیں۔