پاکستانی نصاب تعلیم کے خلاف مغربی طاقتوں کے منصوبے

817

مغرب کی استعماری طاقتوں نے جب مشرق وسطیٰ، افریقا اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر سیاسی اور فوجی طاقت کے ذریعےقبضہ کیا تو انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ مسلمانوں کو ان کی مضبوط دینی اور تہذیبی روایات کی وجہ سے مستقل طور پر غلام بنانا آسان نہیں۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں میں خوئے غلامی پیدا کرنے کے لیے ان کی تہذیب، ثقافت، زبان اور نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ برصغیر میں 1835ء میں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم نافذ کیا گیا، جس کا مقصدبظاہر یہ بتایا گیا کہ اس سے مقامی لوگوں پر سرکاری ملازمت کے دروازے کھلیں گےاور روزگار کے حصول سے ان کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن درحقیقت اس کا مقصد مغربی اقدار اور تہذیب کے لیے راستہ ہموار کرتے ہوئے اسلامی اقدار کو مسخ کرنا، لادینیت کو فروغ دینا اورایسے افراد تیار کرنا تھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں لیکن اپنی سیرت، اخلاق، سوچ، افکار اور نظریات کے حوالے سے مغربی تہذیب کے ترجمان ہوں۔ اس کے علاوہ اس نظام تعلیم کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ برصغیر کے لوگوں کومغربی تہذیب سے مرعوب کرکے، یورپی مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ کھپت کے لیے اس خطے کو ایک وسیع منڈی کے طور پر استعمال کیا جائے۔
اس نئے نظام تعلیم کے تحت پرائمری وثانوی تعلیمی ادارے، کالج و یونیورسٹیاں قائم کی گئیں اور بعد ازاں تعلیم کو مفت اور لازمی بھی قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ یہاں صدیوں سے قائم مساجد، مدارس اور خانقاہوں کی سرکاری امداد بند کرکےانہیں مفلوج کر دیا گیا۔ جن جائدادوں سے ان مدارس کی معاونت ہوتی تھی انہیں ضبط کرلیا گیا اور صرف چند مدارس باقی بچے جن کے مہتم بہت سخت جان ثابت ہوئے۔ تعلیم کے میدان میں علی گڑھ تحریک کےساتھ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلما اور جامعہ ملیہ جیسی تحریکیں بھی اٹھیں لیکن یہ ادارے تعلیم کے نام پر آنے والے مغربی تہذیب و اقدار کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس جدید مغربی تعلیم سے نہ صرف مسلمانوں کا تعلیمی معیار پست ہوا بلکہ ان کا روایتی دینی ذوق اور تخلیقی صلاحتیں بھی مفقود ہو گئیں۔
جنگ عظیم دوم کے بعد مغربی سامراج کو اپنی مشکلات کی وجہ سے یہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور یہاں کے لوگوں کو سیاسی آزادی نصیب ہوئی لیکن جدید تعلیم اور مغرب کی غیر مشروط وفاداری و نقالی کی وجہ سے ذہنی غلامی ختم نہ ہو سکی۔ قیام پاکستان کے بعد دینی عقائد و روایات، تہذیبی و ثقافتی اقدار اور ملکی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم تشکیل دینے کے بجائے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم ہی کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنا لیا گیا۔ اس نظام تعلیم کے زیر اثر آج ایک ایسی نسل تیار ہو چکی ہے جو بظاہر تعلیم یافتہ ہے لیکن ذہنی طور پر مغرب کی غلام ہے۔ انہیں اپنے دین اورتہذیب کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ علم نہیں جو اسلامیات لازمی اور مطالعہ پاکستان کے چند اسباق میں پڑھایا جاتا ہے لیکن وہ مغربی تہذیب کی تمام خرافات کی نقالی کا علم رکھتے ہیں۔ وہ بچے جنہیں والدین، محنت مزدوری اور اپنا پیٹ کاٹ کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسلام اور پاکستان کے وفادار بننے کے بجائےسیکولر نظریات و ثقافت کے علمبردار اور مغرب کے وفادار بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں رائج نظام تعلیم:
ہمارا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ہمیں قابل ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان اور دیگر شعبوں کے ماہرین کی ضرورت ہے بلکہ اس کے ساتھ ہمیں ایسے افراد کی بھی ضرورت ہے جو محب وطن ہوں اور قومی و ملی تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔ ہمارا تعلیمی مسئلہ کسی ایک جز کی اصلاح نہیں بلکہ پورے مغربی نظام تعلیم، اس کے مقاصد، اس کےنصاب، ماحول اور طریقہ تدریس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر قومی، ملی، اور دینی مقاصد و ضروریات کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
ہمارے ملک میں کئی عشروں سے جو نظام تعلیم رائج ہے، اس کی باگ ڈور ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے، جو مغرب کی پیروی میں ہماری نصابی کتب میں موجود مذہبی تعلیمات پر نت نئے سوالات اٹھاتا رہتاہے۔ مثلاً مذہب دور رفتہ کی یادگار ہے، اس کا جدید زمانے سے کوئی تعلق نہیں، آج کے دور میں چودہ سو سال پہلےکا نظا م نہیں چل سکتا، مادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ مغربی تہذیب کو بھی اپنایا جائے، مذہب جدید تمدنی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی ساری تعلیم و تربیت بھی چونکہ مغربی اداروں میں ہوتی ہے اور بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے لیے مغربی طاقتوں کی آشیر باد ضروری ہوتی ہے اس لیے وہ بھی پاکستان میں مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ عوامی حلقوں میں سے جب بھی دینی، ملی و قومی تقاضوں کو پورا کرنے کی کوئی تحریک اٹھتی ہے تو مغرب زدہ حکمران اوربیوروکریسی اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس لیے پاکستانی سیاست میں صرف وہی لوگ بر سراقتدار آتے ہیں جو مغرب کے وفادار ہوں۔ عوام کو حقیقی نمایندے منتخب کرنے کا موقع کبھی نہیں دیاجاتا۔ ان مغرب زدہ حکمرانوں نے بے شمار این جی اوز کو یہاں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو نسوانی اور انسانی حقوق کے نام پر معاشرتی بگاڑکا مشن سرانجام دے رہے ہیں۔
ان این جی اوز اور نام نہاد سول سوسائٹیوں نے بیوروکریسی اورسیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر میڈیا کی آزادی پر کام کیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغرب کی کئی خرافات کو ہمارے معاشرے میں فروغ دیا گیا۔ میڈیا نہ صرف ڈس انفارمیشن (غلط، یکطرفہ یا غیر تصدیق شدہ معلومات) کے ذریعے معاشرے میں انتشار پیدا کرتا ہے، صوبائیت، لسانیت اور قومیت کا زہر گھولتا ہے بلکہ نامناسب فلموں، کارٹون، ماڈلنگ اوراشتہارات کے ذریعے نوجوان نسل کے اخلاق کا جنازہ نکال رہا ہے۔ میڈیا ہماری نئی نسل کو کشمیری، فلسطینی اور افغان بھائیوں کے دکھ، درد میں شریک ہونے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے ہر وقت انہیں ناچ گانے میں مست رکھتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کے بعد ان این جی اوز نے حدود آرڈیننس کے خلاف مہم چلائی، اسلامی سزائوں کو غیر انسانی قرار دیا اورخواتین کے حقوق کے نام پر ایسی قانون سازی کروائی جو مادر پدر آزاد معاشرے کے لیے راستہ ہموار کر رہی ہے۔
پاکستانی نصاب تعلیم میں عالمی اداروں کی مداخلت:
میڈیا اور خواتین کی آزادی کے ساتھ تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیمات کو خارج کرنے کے کام میں بھی تیزی لائی گئی۔ 2004ء میں ایک مقامی این جی او ’’ایس ڈی پی آئی‘‘ نے پاکستانی نصاب کے جائزے پر مبنی ایک ریسرچ پیپر متعارف کروایا۔ مقتدر حلقوں میں اس این جی او کا اس قدر اثر رسوخ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے اس ریسرچ پیپر و رپورٹ کے مندرجات کی صداقت چیک کیے بغیر اس کو درست مان لیا اور اس کی بنیاد پر وزارت تعلیم نے نصاب کی اصلاح کا ایک کمیشن بھی قائم کر دیا۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں پہلے سے موجود نصابی کتب کو ہدف تنقید بنایا گیاحالانکہ ان کے مصنفین اور مولفین بھی زیادہ تر لبرل اور سیکولر حضرات ہی تھے۔ اس تنظیم کو یہ کتابیں شاید اس لیے قابل قبول نہیں تھیں کہ ان کے مصنفین میں روشن خیالی کے ساتھ قومی و ملی حمیت کی کوئی رمق باقی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری پاکستان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ نصابی کتب ہیں، اس لیے ٹیکسٹ بک بورڈ اور وزارت تعلیم کے نصابی ونگ کو ختم کر دینا چاہیے۔ اس رپورٹ کے مطابق معاشرے میں دہشت گردی اور انتہاپسند اسلامی اقدار کی وجہ محض مذہبی مدارس ہی نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے اور ٹیکسٹ بک بورڈ بھی ہے۔
اس رپورٹ میں پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے پر تنقید کی گئی اور سوال اٹھایا گیا کہ اسلام اور پاکستانی نیشنل ازم کو لازمی درسی کتب میں مترادف معنوں میں کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اس سے تو غیر مسلم پاکستانی تحفظات کا شکار ہوتےہیں۔ نظریہ پاکستان کے حوالے سے کہا گیا کہ تحریک پاکستان کےابتدائی ایام میں ریاست کی بحث کے دوران نظریہ پاکستان کی بات نہیں ہوتی تھی اس لیے ہمیں اس کی تاریخی حیثیت پر شبہ ہے۔ اس رپورٹ میں یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اسلامیات لازمی کےعلاوہ دیگر لازمی درسی کتب میں قرآن مجید کی آیات کیوں شامل کی گئیں؟ جہاد اور شہادت سے متعلق اسلامی تصورات سے معاشرے میں جنگجویانہ فطرت پنپ رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مصنفین نے اس بات پر رنجش کا اظہار کیا کہ ملک کے دفاع کو شہری کا اولین فرض کیوں کہا جاتا ہے اور راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید وغیرہ کے نام درسی کتب میں کیوں شامل ہیں؟ دفاعی اخراجات اور جدید ہتھیاروں کی تحصیل کا جواز کیوں پیش کیا گیا؟ یہ موضوعات تو ملٹری ہسٹری، اکنامکس آف وار اورملٹری اسٹیڈیز کے ہیں، انہیں چھوٹے لیول کی درسی کتب میں شامل کرنے کا کیا جواز ہے۔
اس رپورٹ میں خواتین کے چادر اوڑھنے اور معقول لباس زیب تن کرنے کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا اور ہوم اکنامکس کالجز کے قیام کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے خواتین کے لیے مخصوص شعبوں میں جانے کے راستے طے ہو جاتے ہیں جس سے مردوں کی برتری قائم رہتی ہے۔ اس رپورٹ میں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ القاب اور صیغوں پر بھی اعتراض کیا گیا لیکن حیرت ہے کہ ایک طرف انہیں نسائی شناخت پر اعتراض ہے اور دوسری طرف حقوق نسواں کی تحریک پر کوئی اعتراض نہیں۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر منیر الدین چغتائی نے کہا تھا کہ یہ نظریہ پاکستان اور پاکستان کے وجود کے خلاف کھلی جنگ ہے۔ ہمارے نام نہاد مفکرین کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی نصاب تعلیم سے ایسی تمام چیزیں نکال دی جائیں جو ہمارے نظریہ حیات کی بنیاد اور جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔ نیز انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
اس کے بعدعلمائے کرام نے این جی اوز، نصاب تعلیم میں تبدیلیوں اور اس معاہدے کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا جس کے تحت امریکا نے آغا خان فائونڈیشن کو ساڑھے 4 لاکھ ڈالر کے عوض پورا نصاب تبدیل کرنے کا کہا تھا۔ 22 جماعتوں پر مشتمل ’’تحفظ تعلیمی نصاب محاذ‘‘ قائم کیا گیا تھا، جس میں بحالی قرآنی آیات کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ علمائے کرام کی یہ تحریک پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 31 کے عین مطابق تھی، جس کے تحت ریاست پاکستان، یہاں کے عوام کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق بسر کرنے کے قابل بنانے اورسہولیات بہم پہنچانے اور اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ ریاست کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید اور اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دیتے ہوئے عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرے اور پاکستان کے مسلم طالب علموں کو اسلامی اقدار کی حفاظت اور پابندی کی تربیت دے اور بین الاقوامی سطح پر ایسا کوئی معاہدہ نہ کرے جو اسلام اور پاکستان کے مقاصد کے خلاف ہو۔
تحفظ تعلیمی نصاب محاذ اور اس کے بعد 2013ء میں ’’سیکولر نظام تعلیم کے خلاف تحریک‘‘ کا بھی وہی حشر ہو ا جو یہاں ہر عوامی تحریک کا ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے وعدہ وعید کرکے عوامی جذبات ٹھنڈے کر دیے جاتے ہیں اور پھر سیکولر بیوروکریسی وہی کرتی ہے جو اسے مغربی آقائوں کی طرف سے کہا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کئی غیر ملکی ادارے اور تنظیمیں اربوں ڈالر خرچ کرکے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنے، تعلیمی اداروں کا اخلاقی ماحول خراب کرنے اور مادر پدر آزادی کا راستہ ہموار کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ فیشن اور کلچرل شوز کے نام پر ناچ گانا، رقص و سروداور کیٹ واک اب تمام بڑے پرائیویٹ تعلیمی اداروںمیں غیر نصابی سرگرمیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ طلبہ کی بہت بڑی تعداد شراب اور منشیات استعمال کر رہی ہے۔ جنسی و تولیدی صحت و حقوق کے نام پر اب جنسی تعلیم کو بھی نصاب تعلیم کا حصہ بنانے کی کوششیں تیز تر ہو چکی ہیں۔
حکومت پاکستان کو اپنے ملک کا تعلیمی نصاب تبدیل اور اس پر نظر ثانی کرنے میں اتنی دلچسپی نہیں، جتنی بین الاقوامی اداروں کو ہے۔ ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بے شمار منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام مکمل طورپر ان کی نگرانی میں چلا یا جائے۔ یو ایس ایڈ کے منصوبوں میں اساتذہ و منتظمین کی تربیت، تعلیمی وظائف، ریسرچ اسکالرز کی مالی امداد، بالغ طلبہ کی غیر ملکی سیر و سیاحت اور کئی دیگر پروگرام شامل ہیں۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی رپورٹوں میں بھی پاکستان کانصاب تعلیم خاص نشانے پر ہوتا ہے اور اس سلسلے میں معلومات کی فراہمی کی خدمت بجا لانے کے لیے مقامی این جی اوز ہر وقت تیار ہوتی ہیں۔
اس کمیشن کی 2016ء کی رپورٹ اور سفارشات میں کہا گیا کہ پاکستان کی نصابی کتب میں جنگوں اور جنگی ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ اور ایسے دیگر مضامین فخریہ انداز سے نصابی کتب میں کیوں شامل ہیں؟ تہذیب و ثقافت کے اظہار کے لیے ناچ، گانا اور شادی بیاہ کی رسومات کو دکھانے کے بجائے جنگوں کو کیوں پیش کیا جارہا ہے؟ اس رپورٹ کے لیے ایک مقامی این جی او ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن‘‘ نے تحقیق کرکے سفارشات تیار کی تھیں۔ ا س این جی او نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس سے قبل اس کی طرف سے پیش کی گئی سفارشات کی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کی نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جا چکی ہیں۔
اس رپورٹ میں پاکستان، بھارت تنازعات کو مذہبی تناظر میں پیش کرنے اور اسلامی عقیدے پر اصرار کرنے کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان میں اسلام کو شناخت کی اعلیٰ ترین خاصیت کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ اس رپورٹ میں یہ سفارشات بھی پیش کی گئیں کہ نصابی کتب میں مذہبی آزادی واقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی باتیں اور عقیدے کی تعلیم کے بجائے غیر جانبدار باتیں شامل کی جانی چاہییں۔ مغربی ممالک اور عیسائیت کے حوالے سے بہتر رویہ اپنانا چاہیے۔ اس فائونڈیشن کے سرکردہ لوگوں نے حکومتی وزرا، گورنرز اور بااثر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اس رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ (جاری ہے)