مسئلہ کشمیر اور عالمی اداروں کی تشویش

408

بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدارت میں منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس نے ملکی داخلی اور علاقائی سلامتی کے در پیش خطرات کا جائزہ لیا ۔اجلاس میں خاص طور پر یوم کشمیر کے پس منظر میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیکورٹی اور عالمی اداروں کی بڑھتی تشویش کو مثبت پیش رفت قرار دیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدو جہد کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ، عسکری قیادت نے جن امور کا جائزہ لیا ان میں کشمیر کا مسئلہ اولیت رکھتا ہے ، لیکن یہ مسئلہ بھی تمام عالمی اور علاقائی مسائل سے منسلک ہے ۔ اس حوالے سے نئے امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات زیرِ بحث ہیں ۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء دو حا معاہدے کا مستقبل اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی واپسی امریکی پالیسی کے کلیدی موضوعات میں اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر کشیدگی کو امریکا اور عالمی طاقتیں اپنے تناظر میں دیکھتی ہیں ۔ جوبائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے، ٹرمپ کی رُخصتی کے باوجود بھارت امریکا شراکت داری بر قرار رہے گی ۔ مسئلہ کشمیر کو کشمیری مسلمانوں نے72 سال سے زندہ رکھا ہوا ہے اور اس کے لیے نا قابل فراموش قربانیاں دی ہیں ، رسمی اور زبانی طور پر ہماری حکومتوں نے اس مسئلے کو عالمی اور علاقائی سطح پر اجاگر رکھنے کے اقدامات تو لیے ہیں لیکن حکومتوں کی کارکردگی کو مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ عالمی طاقتیں جانتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت جوہری صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کو نظر انداز نہیں کر سکتے لیکن انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی سطح پر جیسی سفارت کاری ہونی چاہیے ویسی نہیں ہوئی۔ امریکا اور عالمی اداروں نے ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کو دہشت گردی کا ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کیا ہوا ہے اور اپنے احکامات منوائے جا رہے ہیں۔ ستمبر 2019ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب میں مسئلہ کشمیر زور دار انداز میں پیش کیا گیا، لیکن اس کے بعد سے خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یہ بھی پاکستان کی سفارتی اور خارجہ پالیسی کی نا کامی ہے کہ او آئی سی کی سطح پر بھی مسئلہ کشمیر پر آواز نہیں اٹھائی جا سکی۔ وزیراعظم نے اپنے آپ کو کشمیر کا سفیر قرار دیا لیکن موثر سفارت کاری کے اقدامات نہیں کیے گئے ۔ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اس لیے اُجاگر ہوا ہے کہ اگست 2019 ء کے بعدسے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پا مالی اور طویل محاصرے نے دنیا کو اس طرف متوجہ کیا ہے، عالمی اداروں کو دو جوہری ممالک کی کشیدگی پر تشویش ہے یہ توجہ اس وقت مثبت سمجھی جائے گی جب اقوام متحدہ اپنی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق رائے شماری کا انتظام کرے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مدعی سست اور گواہ چست ہوں۔ اس سلسلے میں ظاہر کیے جانے والے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے حکمرانوں نے کشمیر سے دست برداری کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی قیاس آرائیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی احکامات کی تابعداری کی تاریخ رکھتے ہوئے سقوط سری نگر کی تشویش بے جا نہیں ہے۔