طلبہ یونین کی ضرورت ، اہمیت اور افادیت

485

سید صہیب الدین کاکاخیل سابق ناظم اعلی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان
طلبہ یونین کی ضرورت ، اہمیت اور افادیت میں کوئی دو رائے نہیں ہیں ۔ جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس دلایل یا وجوہات نہیں ہوتے جس سے ان کے اس موقف کو تقویت ملے کے اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی کیوں ہونی چاہیے ۔
ایک ایسے ملک اور معاشرے میں جہاں ہم مسلسل اس جدوجہد میں ہیں کے جمہوریت مضبوط ہو ، جمہوری نظام اور رویوں کو تقویت ملے ، عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ سیاسی عمل اور فیصلوں میں شریک کیا جائے اور جمہوریت کے ثمرات سے براہ راست عوام مستفید ہوں ۔
ایسے ماحول اور معاشرے میں سٹوڈنٹس یونین کی اہمیت اور کردار مزید بڑھ جاتا ہے ۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 17 کے اندر یہ لکھا ہوا ہے کے ریاست پاکستان کے تمام شہریوں کو اس بات کا پورا حق حاصل ہوگا کے وہ جس شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں ان کو اپنے اجتماعی حقوق کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے یونین سازی کا حق حاصل ہوگا ۔ اس وقت پاکستان میں آپ تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد اپنے جائز مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے یونین رکھتے ہیں ۔ اس وقت ٹرانسپورٹرز ، وکلا ، تاجر ، مزدور ، اساتذہ ، کلاس تھری اور فور ملازمین ، رکشہ برادری ، حجام ، نان بائ غرض تمام شعبوں سے وابستہ افراد کی یونین موجود ہیں لیکن ملک کا سب سے باشعور اور تعلیم یافتہ طبقہ طلبہ کو اس سے محروم رکھا گیا ہے ۔ تقریباً 36 سال ہوگئے ہیں کے اس پر پابندی لگی ہوئی ہے ۔ جمہوریت کی وہ نرسری جہاں سے اس ملک کو پڑھی لکھی ، باشعور ، تربیت یافتہ ، مڈل کلاس لیڈر شپ فراہم ہونی تھی اس کا گلہ دبا کر بیٹھے ہیں ۔
یونین پر پابندی 1984 میں جنرل ضیاء الحق نے لگائی تھی اور جواز یہ پیش کیا تھا کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی عمل متاثر ہورہا ہے لیکن درپردہ اس کے پیچھے یہی سوچ تھی اس کے ڈکٹیٹر شپ کے خلاف توانا اور مضبوط آواز کو دبایا جا سکے ۔ آج 36 برس گزر جانے کے بعد اگر ہم دیکھیں تو پاکستان میں تعلیمی بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے ۔ اگر ہم آج کے دور کے تعلیمی دنیا کا موازنہ سٹوڈنٹ یونین کے دور سے کریں تو وہ دور تعلیمی معیار ، نظم و ضبط ، تعلیم کے لیے مختص حکومتی وسائل ، امن و آمان ، تعلیمی اداروں کا معاشرے پر مثبت اثرات ، اخلاقی اور معاشرتی قدرروں کی مضبوطی جمہوری رویوں اور برداشت کے کلچر کے فروغ کے حوالے سے کئی گناہ زیادہ بہتر تھا ۔
اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگنے سے جو منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوئے ہیں وہ بہت گہرے اور بتدریج ہیں جو تین دائروں پر مرتب ہوئے ۔
1) طالب علم کی شخصیت پر :
اسٹوڈنٹ یونین طالب علموں کا وہ منتخب پلیٹ فارم ہوا کرتا تھا جہاں پر ان کی سیاسی اور فکری نشونما کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت سازی (personality development) پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی ۔ اسٹوڈنٹ یونین کے پلیٹ فارم سے غیر نصابی سرگرمیاں مباحثے ، تقریری اور تحریری مقابلے ، کھیلوں کی سرگرمیاں ، بزم ادب کے پروگرامات ، ملکی بین الاقوامی مسایل ایشوز پر سیمینارز ، احتجاج ، اپنے حقوق کے حصول ، فرائض کی ادائیگی اس سب کا شعور پیدا ہوتا تھا ۔ جس سے اس کی صلاحیت اور شخصیت میں مزید نکھار آجاتا تھا ۔ ان تمام سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ ایک خطیر یونین فنڈ ہوا کرتا تھا یہ تمام سرگرمیاں کسی بھی طالب علم کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی نصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں ۔ اس کے بغیر طالب علم کتابیں پڑھ کر ڈگری تو حاصل کر لیتا ہے لیکن تعلیم کا مقصد اور شعور اس کے زہن میں نہیں سماتا اور اس کے اندر اللہ‎ پاک نے جو پوشیدہ تخلیقی صلاحیت رکھی ہوتی ہے وہ اندر ہی اندر دب جاتی ہے اور اس کی نشو نما نہیں ہوپاتی۔اس لیے جو سب سے پہلا نقصان ہوا وہ طالب علم کی شخصیت کو ہوا جو اس انداز میں پنپ نا سکی اور بتدریج طالب علم علم کا ذہن ایک خاص خول سے باہر نا نکل سکا ۔
2)تعلیمی دنیا پر اثرات :
طلبہ یونین کا منتخب نمائندہ تعلیمی اداروں کے انتظامی اور پالیسی ساز فورمز کا حصہ ہوتا تھا اور طلبہ کی نمائندگی کرتا تھا ۔ جس سے تعلیمی اداروں کے اندر ہمیشہ طلبہ کو سہولیات کی فراہمی جو ان کا بنیادی حق ہے اس میں فراوانی رہتی تھی ۔ یہی نمایندے مجموعی ملکی تعلیمی پالیسی کے تشکیل میں طلبہ برادری کی طرف سے سفارشات اور احساسات حکمرانوں کو پیش کرتے ۔ گرانٹس کے حصول اور بجٹ میں اضافے کے حوالے سے بھی سٹوڈنٹ یونین کا موثر کردار ہوتا تھا۔ اب اگر آپ 35 سال بعد آج کے دور کا اس وقت سے موازنہ کریں گے تو وہ دور طلبہ کے لیے سہولیات کے حوالے سے بہت بہتر تھا ۔ آج سٹوڈنٹ یونین کی غیر موجودگی میں شعبہ تعلیم بِلُعموم اور طلبہ بلخصوص یتیم ہوکر رہ گیے ہیں ۔ اس وقت سرکاری یونیورسٹیز جہاں اس ملک کا غریب ، لویر مڈل اور مڈل کلاس طبقہ تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں پر مسلسل فیسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے غریب کے بعد اب وہاں مڈل کلاس کا داخلہ بھی بند کیا جارہا ہے ۔ سہولیات کی صورت حال یہ ہے کے یونین کے وقت 1984 میں کراچی یونیورسٹی کا شعبہ ٹرانسپورٹ جو سٹوڈنٹ یونین کی زیر نگرانی چلتا تھا اس میں 100 سے زائد پوائنٹس طلبہ اور طالبات کو شہر بھر میں ٹرانسپورٹ فراہم کرتے تھے آج 2019 میں جب شہر کی آبادی کئی گناہ بڑھ گئ ہے اور طلبہ و طالبات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اب وہاں گنتی کے چند بسیں نظر آتی ہیں ۔ ملک کے 90 فیصد سے زائد جامعات میں اور اداروں میں ٹرانسپورٹ کی سہولت ہی نہیں ہے ۔ اسی طرح سٹوڈنٹ یونین کی غیر موجودگی میں طلبہ کا کوئی پلیٹ فارم نہیں جس سے ہونے جائز حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھائ جائے ۔ تعلیمی بجٹ کی کمی اداروں میں اساتذہ ، ہوسٹلز ، کلاس رومز لائبریری وغیرہ کے شدید کمی کے مسایل ہیں ۔یونیورسٹی انتظامیہ زور زبردستی سے ایسے آوازوں کو سیاست کا لیبل لگا کر دباتی ہے جو ان مسایل پر آواز اٹھاتے ہوں ۔ اس لیے تعلیمی دنیا ہر انے والے دن کے ساتھ مسایل کے دلدل میں دھنس رہی ہے انتظامیہ کی گرفت مضبوط ہورہی ہے طلبہ خوف کا شکار ہورہے ہیں اور اب یونیورسٹیز میں سب سے خطر ناک بات طالبات کی اساتذہ کی جانب سے ہراسگی میں مسلسل اضافہ ہے
3) معاشرے پر اثرات :
جمہوریت کا مطلب صرف انتخاب یا پیٹی میں ووٹ ڈالنا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک رویے، عمل ، برداشت اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور جہد مسلسل کا نام ہے ۔ اب جب انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو اپنی سوچ فکر نظریے کے ساتھ ساتھ اپنا پروگرام منشور اور ویژن لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں ۔ اپنی محنت ، صلاحیت ، پرسنالٹی ، ٹیم ورک اور ذہانت سے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس میں اگر کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر اس اعتماد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ناکام ہوجاتے ہیں تو اپنی غلطیوں ، کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیے ہوتے آپ اس کی اصلاح کرکے اگلی دفعہ پھر تیاری سے اترتے ہیں ۔
یہی کچھ سٹوڈنٹ یونین میں ہوا کرتا تھا ۔ طلبہ تنظیم یا امیدوار کی کوشش ہوتی تھی کے وہ اپنے کردار ، سرگرمیوں اور نظریے سے طلبہ کا اعتماد حاصل کرے اس کے لیے وہ کوشش کیا کرتے تھے ۔ چونکہ طلبہ طالبات سے ووٹ لینا ضروری تھا اس لیے اداروں میں لڑائی جھگڑے بہت کم ہوا کرتے تھے ۔ برداشت اور راواداری کی مجموعی فضا تھی ۔ مختلف نظریات کے افراد اور تنظیموں میں فکری اختلاف اور کشمکش اقدار اور روایات کے تابع تھی ۔ عموماً طلبہ یونین کے صدور اچھے مقرر ، زہین ، اور جاذب شخصیت کے طلبہ ہوا کرتے تھے ۔
اس لیے تعلیمی اداروں سے فارغ طلبہ وسیح زہن سوچ کے ساتھ ساتھ برداشت راواداری اور سپورٹس مین سپرٹ کے جذبے سے معاشرے میں جاتے جنہیں اپنے حقوق اور فرائض کا علم ہوتا تھا اور وہ معاشر مثبت تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے تھے ۔
اسی طرح سیاست اور سیاسی جماتوں میں متحرک ، ایماندار ، نظریاتی ، تعلیم یافتہ لیڈر شپ فراہم ہوتی تھی ۔
پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کے تعلیمی اداروں میں قبضہ گروپ بن گئے ، تشدد کا عنصر بڑھ گیا ، نظریات کی بجائے علاقائی نسلی لسانی گروپ بن گئے۔ کیونکہ ووٹ تو لینا نہیں تھا جس کی وجہ سے آپ ہر طالب علم کے محتاج ہوتے اس لیے تعلیمی اداروں کا پورا ماحول بدل گیا اور وہ جمہوری عمل رکھ جانے سے طلبہ کی وہ ذہنی فکری کردار سازی رکھ گئی ان میں برداشت ، راواداری ، سپورٹس مین سپرٹ ، جدوجہد ، سیاسی شعور ، حقوق کا حصول ، فرائض کی ادائیگی جیسے صفات بدرجہ اتم کم ھوگئے ۔ اور اس کے اثرات آج معاشرے میں مکمل طور پر ظاہر ہیں ۔
یہ تینوں اثرات انتہائی مختصر بیان کیے ہیں وگرنہ اس کے ہر نکتے پر بہت ہی تفصیل سے کئی اقساط میں بات کی جاسکتی ہے
اسٹوڈنٹس یونین کا طلبہ سیاست سے گہرا تعلق رہا ہے۔بدقسمتی سے آج کے دور میں لوگوں کی اکثریت یونین اور طلبہ تنظیم میں فرق سمجھ نہیں پارہی ہے ۔اس وقت جو طالب علم تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں ان کی عمریں زیادہ سے زیادہ 22/23 سال ہیں جبکہ یونین پر پابندی لگے 35 سال ہو گئے ہیں۔
ستم ظریفی یہ کہ اس پر بات کرتے ہوئے اکثر خود ساختہ دانشور اور تجزیہ نگار بھی اس فرق کو ملحوظ نظر نہیں رکھ پاتے۔ میری ناظم اعلی کی ذمہ داری کے دوران ڈان اخبار میں طلبہ سیاست کے حوالے سے کالم لکھا گیا اور مصنف نے یونین اور طلبہ تنظیموں کے فرق کو ملحوظ نظر نہ رکھتے ہوئے دونوں کو آپس میں گڈمڈ کیا ہوا تھا جس پر ہم ان سے رابطہ کیا اور اخبار کے انتظامیہ نے ہمارا جوابی وضاحتی موقف شایع کیا ۔ اسی طرح ایک ٹاک شو میں شرکت کے دوران ہوسٹ صاحب نے ذرین خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کے یونین پر پابندی مشرف نے لگائی جسے یوسف رضا گیلانی نے ختم کی ہے اور اب یونین کراچی اور اردو یونیورسٹی میں بہت مضبوط ہیں میں حیرت سے اس کا منہ تلک رہا تھا اور سوچ رہا تھا کے یہ حال ہیں جناب کے علم کا اور بنے ہیں دانشور ۔۔
طلبہ تنظیم کسی بھی نظریہ، سوچ، فکر اور منشور کے تحت بن سکتی ہے۔مثلاً اسلامی جمعیت طلبہ، پیپلز ایس ایف، پختون ایس ایف، ایم ایس ایف، این ایس ایف وغیرہ سب طلبہ تنظیمیں ہیں۔سٹوڈنٹس یو نین طلبہ کا آئینی اور قانونی ادارہ ہوا کرتا تھا۔جس میں تعلیمی ادارے ، کالج اور یونیورسٹی میں باقاعدہ انتخابات کے ذریعے طلبہ اپنے لئے قیادت کا انتخاب کرتے تھے۔ ان انتخابات میں طلبہ تنظیموں کے نمائندے بھی حصہ لیتے تھے اور آزاد طلبہ بھی۔ان منتخب نمائندوں کی اپنی ایک تسلیم شدہ حیثیت ہو تی تھی وہ حکومتی اور سرکاری فورمز پر طلبہ کی نمائندگی کرتے تھے ۔تمام کے تمام طلبہ و طالبات اس یونین کے ممبر ہو تے اور اپنے، اپنے تعلیمی اداروں میں ووٹ ڈالنے کے مجاز ہو تے تھے۔
۔۔۔۔ فروری 1984 کو جنرل ضیا ء الحق نے اس پر پابندی عائد کر دی اور طلبہ یو نین اور طلبہ تنظیمیں کا لعدم قرار دی گئیں۔
قیام پاکستان کی تحریک میں طلبہ نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔علی گڑھ یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور، ایڈورڈز کالج پشاور ، ڈھاکہ یونیورسٹی مشرقی پا کستان ، اسلامیہ کالج لاہور اور پنجاب یو نیورسٹی لا ہور کے طلباء نے بھرپور انداز میں قیام پاکستان کی تحریک میں کردار ادا کیا تھا۔مغربی پاکستان کی نسبت مشرقی پاکستان کے لوگوں میں سیاسی تحرک اور شعور بہت زیادہ تھا۔اس وجہ سے طلبہ سیاست بھی وہاں پر زیادہ فعال تھی۔قیام پاکستان کے بعد بھی مشرقی پاکستان کی سیاست میں طلبہ سیاست خصوصاً ڈھاکہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا کردار بہت کلیدی تھا۔ مغربی پاکستان میں طلبہ
سیاست اور تحریکات میں وقتاً فوقتاً ابھار آتا رہتا تھا۔خصوصاً ایوب خان کے 3 سالہ ڈگری پروگرام اور یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف بھرپور تحریک میں مغربی پاکستان کے طلبہ نے بھی بہت مؤثر کردار اداکیا تھا۔اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ پنجاب یو نیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر بارک اللہ خان اس کے روح رواں تھے۔
ایوب خان کے خلاف فیصلہ کُن تحریک کے وقت پوری دنیا میں طلبہ سیاست میں ایک اُبھار اور ایک لہر اُٹھ چکی تھی۔اس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے اور طلبہ یونین کے بھرپور سیاسی کردار کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔
60 کی دہائی کے اواخر سے 1983 تک طلبہ یونین اور طلبہ تنظیموں کا انتہائی بھرپور سیاسی، نظریاتی اور تحرک کا دور رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں طلبہ ہی تھے جنہوں نے اس کی آمرانہ سوچ کے خلاف جد و جہد کی تھی ۔ بنگلہ دیش نامنظور تحریک اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے ختم نبوت کی ملک گیر تحریک دونوں کی قیادت اسلامی جمیعت طلبا سے وابسطہ سٹوڈنٹس یونینز نے کی جنہیں طلبہ و طالبات کے دائرے سے بھر عوام کی بھی بھرپور تائید اور تعاون حاصل رہا ۔ 70 کی دھائی کی اسٹوڈنٹس یونین کی کامیابیوں میں 74 کایونیورسٹی آرڈیننس ایکٹ تھا جس میں جامعات کے سینڈیکیٹ میں طلبہ کو نمائندگی حاصل ہوئی ۔ طلبہ یونین پر پابندی کا مقصد طلبہ کی جمہوری اور عوامی آواز کو دبانا اور ختم کرنا تھا۔