جمہوری نظام اور آمریت پسند سیاسی رہنما !۔

699

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے جمعرات کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نظر نہیں آتی، سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اندر جمہوری رویے اپنانے چاہییں، سیاسی جماعت کے سربراہ کو بھی ڈکٹیٹر نہیں ہونا چاہیے، پاکستان میں تو ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو ایک بندے پر مبنی ہیں، ایسے سیاستدان بھی ہیں جو کہتے رہے کہ ضمیر کے خلاف ووٹ ڈالا، یہ بھی دیکھنا ہے کہ کرپٹ پریکٹس سے ایوان بالا گدلا ہوا تو کیا ہو گا جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں، ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے، حکومتی مخالف غدار اور حامی محب وطن قرار پاتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان خصوصاً چیف جسٹس گلزار احمد کے سیاسی جماعتوں سے متعلق تاثرات ملک کی جمہوریت کی دعویدار سیاسی پارٹیوں کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے، کاش کہ یہ محض ریمارکس کے بجائے جمہوری جماعتوں میں کسی مقدمے کے عدالتی فیصلے کے نکات ہوتے۔ ملک کے ممتاز قانون دان بیرسٹر خواجہ نوید احمد کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائیوں کے دوران ججوں کے ریمارکس کی کوئی قانونی اہمیت و حیثیت نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے فیصلوں کا حصہ بنایا جاتا ہے اسی لیے ایسے ریمارکس کے کوئی نتائج نہیں نکلتے۔ ایک سوال کے جواب میں سابق جج و بیرسٹر خواجہ نوید احمد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ججوں کے سخت ریمارکس کے نتیجے میں قانون سے نابلد اور عام لوگوں میں خوش فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ جج صاحبان اپنے ریمارکس کو بھی فیصلوں کا حصہ بنائیں۔ رہی بات چیف جسٹس کے اس ریمارک کی کہ ’’ملک کی سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نظر نہیں آتی، سیاسی جماعت کے سربراہ کو بھی ڈکٹیٹر نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ اس امر سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوائے جماعت اسلامی کہ کوئی سیاسی پارٹی معروف جمہوری تقاضوں کے مطابق چلائی جارہی ہے اور نہ ہی چلا کرتی ہے، اس بات سے بھی ملک کے تمام باشعور شہری متفق ہیں کہ بیش تر سیاسی جماعتوں کے سربراہ خصوصاً وہ جو پارٹی کے بانی ہیں یا ان کے خاندان سے ہیں وہ اپنی جماعتوں کو آمریت کے طرز پر چلایا کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک ایسے ڈکٹیٹر کا روپ اختیار کرچکے ہیں جن کے خلاف سینئر کیا کوئی بھی مخالفت تو کجا تنقید کرنے کا بھی تصور نہیں کرسکتا۔ جمہوریت پسندی کے دعویدار کارکن ہی نہیں بلکہ معروف سیاسی رہنما بھی اپنی پارٹیوں میں آمریت پسند سربراہان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں اور جمہوریت پسندی کی بانسری بجاتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں جب یہ جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں یا اقتدار کا حصہ بنتی ہیں تو وہ اپنے ووٹرز ہی کیا عام لوگوں کو اپنے ’’ہرکارے‘‘ سے زیادہ نہیں سمجھا کرتیں۔ اس طرح یقین کرلیا جائے کہ ہمارے جمہوری ملک میں آمریت پسند سیاسی سربراہان اور ان کے ہرکاروں کی حکومتیں بنا کرتی ہیں۔ ہرکاروں کا کام پیغام رسانی ہوتا ہے اور یہ لوگ پارٹی لیڈروں کی خواہشات و ترجیحات کو بہت سلیقے و طریقے سے نیچے تک اور متعلقہ افراد تک پہنچایا کرتے ہیں۔ بس یہی کچھ ہے جسے قوم جمہوریت سمجھ کر برداشت کرتی آرہی ہے حالانکہ اس عمل کا دور تک جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس صورتحال اور چیف جسٹس کے جمہوریت اور سیاسی پارٹیوں کے بارے میں تاثرات سے کیا ملک کا نظام جمہوریت کی اصل راہ پر آسکتا ہے یا آجائے گا؟ خیال ہے کہ جب تک سیاسی جماعتوں کو جمہوری طرز عمل اختیار کرنے کے لیے قانونی طور پر پابند نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک ہمارا جمہوری نظام حکومت اسی طرح چلتا رہے گا۔ چونکہ عدلیہ تک سیاسی جماعتوں کے معاملات اور امور سے بخوبی واقف ہے اس لیے کچھ مشورہ یا تجویز دینا تو ’’سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا‘‘۔