حکومت نے آرڈیننس قیاس آرائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا، چیف جسٹس

488

اسلام آباد:چیف جسٹس  گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے کہ آرڈیننس مفروضے کے اصول پر مبنی ہے،آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے، حکومت نے آرڈیننس قیاس آرائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا،حکومت کو کوآرڈیننس جاری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی اور الیکشن ایکٹ سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)پاکستان کی درخواست پر نوٹس لیا۔

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت میں موقف اپنایا   کہ حکومت نے اوپن بیلٹ کے لیے آرڈیننس جاری کردیا ہے جبکہ عدالت اوپن بیلٹ کے بارے میں صدارتی ریفرنس سن رہی ہے اور اسی دوران آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی کارروائی کا ذرا بھی احترام نہیں کیا گیا، آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی، حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے اپنا فیصلہ کرلیا، اسی لیے ہم نے ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست عدالت میں جمع کرا دی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس د یئے  کہ آپ کی درخواست کو بھی سن لیتے ہیں اور اس پر نوٹس جاری کردیتے ہیں، لگتا ہے کہ آرڈیننس مفروضے کے اصول پر مبنی ہے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے، حکومت نے آرڈیننس قیاس آرائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جاری کیا، معلوم نہیں کہ آرڈیننس کیسے جاری ہوا لیکن آرڈیننس تو جاری ہو چکا ہے، حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر عدالت نے رائے دی کہ سینیٹ الیکشن آرٹیکل 226میں نہیں آتا تو یہ آرڈیننس برقرار رہے گا، اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اور عدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیر موثر ہوجائے گا۔

دوران سماعت پی پی پی کے رہنما رضا ربانی نے آزادانہ حیثیت سے عدالت میں موقف پیش کیا اور آرڈیننس کے اجرا پر اعتراض کیا۔رضا ربانی نے عدالت میں کہا کہ آرڈینس جاری کر کے عجیب و غریب حالات پیدا کر دیئے  گئے ہیں، آرڈیننس میں لکھا ہے یہ فوری نافذ العمل ہوگا اور اگر عدالت کی رائے حکومت سے مختلف ہوتی ہے تو آرڈیننس کا کیا ہوگا۔

اس  پرجسٹس اعجازالاحسن نے  ریمارکس  دیئے کہ آرڈیننس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جبکہ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 226کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟، ہم نے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں، سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ یہاں قانون پڑھے بغیر ہی پریس کانفرنس کردی جاتی ہے، اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر جمعرات کو کیا ہوا وہاں تو مختلف موقف اختیار کیا گیا۔رضا ربانی نے کہا کہ میں سیاسی معاملے کی طرف آتا ہوں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں صدارتی ریفرنس کی سماعت میں فریق نہیں ہیں، رضا ربانی بولے میں یہاں تصحیح کرنا چاہتا ہوں، سندھ حکومت کے ذریعے پیپلزپارٹی یہاں فریق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نہ تو سیاسی جماعت کی طرف سے بات کرسکتی ہے اور نہ سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے بات کر سکتی ہے، جس پر رضا ربانی نے کہا کہ حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا بڑی عجیب بات ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلزپارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں جبکہ میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کررہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن شیڈول 11 فروری کے بعد جاری ہونے سے مسائل ہوسکتے تھے، آرڈیننس مفروضے پر نہیں بلکہ ایک مشروط قانون سازی ہے، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 126میں ترمیم کی گئی ہے اور آرڈیننس سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں رو بہ عمل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پرووائزو میں ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے قرار دیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ووٹنگ خفیہ ہوگی لیکن بیلٹ کی بوقت ضرورت شناخت ہوسکے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فرض کریں سپریم کورٹ رائے نہیں دیتی تو 11مارچ کو سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس کے حوالے سے دی گئی درخواست کو بھی کیس کے ساتھ سنیں گے  جس کے بعد  عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس میں یہ بھی لکھا ہے کہ عمل درآمد عدالتی رائے سے مشروط ہوگا، آرڈیننس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، آرڈیننس کا عدالتی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔اس موقع پر اپنے ریمارکس  میں  بنچ کے رکن جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ گزشتہ  جمعرات کو آخری سماعت ہوئی، اس روز ترمیم قومی اسمبلی سے واپس لی گئی تھی اور قومی اسمبلی میں اس روز کافی کچھ ہوا تھا۔

اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دوسرے ملکوں کی پارلیمنٹ میں تو کرسیاں بھی چل جاتی ہیں، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شاید اسی لیے ہماری پارلیمنٹ میں کرسیاں فکس کی گئی ہیں۔