۔ 5فروری اور یکجہتی کی سیاست

664

 5فروری 2021: اس برس بھی اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا کھیل کھیلا گیا۔ اس کھیل میں ہم کشمیریوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔۔۔ زندگی کی جنگ میں ہی نہیں کھیلوں میں بھی جیت اور ہار ہوتی ہے۔ کامیابی اس وقت ملتی ہے جب مخالف کو شکست دی جائے لیکن یکجہتی کے اس کھیل میں جیت ہمارے عزائم میں شامل نہیں۔ بھارت کو شکست دینے کے لیے یہ کھیل نہیں کھیلا جاتا۔ ہم گلی گلی محلے محلے کرکٹ کھیلتے ہیں، ہاکی اور فٹ بال کھیلتے ہیں، پتنگ اڑاتے ہیں، ٹینس، بیڈ منٹن، تاش، لوڈو، کیرم اور شطرنج کھیلتے ہیں۔ ان کھیلوں میںکامیابی سے زیادہ پر لطف لمحات کا حصول عام آدمی کا مقصد ہوتا ہے۔ مسائل سے آنکھیں چرانے کے لیے اک گو نہ بے خودی درکار ہوتی ہے، کھیل جس کا ذریعہ ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی سیاست بھی ایک ایسا ہی کھیل ہے جو 5فروری کو کھیلا جاتا ہے۔ ریلیاں نکال کر، چھوٹی چھوٹی جلسیاں اور جلسے کرکے، تقریریں کرکے رگ پٹھے مالش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے بعد اگلے برس 5فروری تک ہم اس کھیل کو بھولنا چاہتے ہیں لیکن ان کشمیریوں کا کیا کریں جو آئے دن بھارت کے خلاف اپنی کارگزاریوں سے ہمیں اس کھیل سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔ ان کشمیری عورتوں کا کیا کریں جو صبح اٹھ کر روز گھر کے دریچوں سے باہر جھانک کر دیکھتی ہیں کہ کیا پاکستانی فوجی بھائی، بیٹے اور جوان ہمیں بھارتی درندوں سے بچانے آگئے۔
کرکٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیٹسمین نہ کھیلے لیکن کریزپر کھڑا رہے تب بھی اسکور ہوتا رہتا ہے۔ نو بال، وائڈبال اور لیگ بائی کی صورت میں۔ کشمیر کے معاملے میں اب ہم کریز پر کھڑا رہنا بھی نہیں چا ہتے۔ جب وزیراعظم عمران خان نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر با آواز بلند کہا تھا ’’کیا انڈیا سے جنگ کرلوں‘‘ اور ارکان اسمبلی نے خاموش رہ کر وزیراعظم کے اس سوال میں پوشیدہ بھارت سے ہزیمت اور جنگ نہ کرنے کے خیال کی تائید کی تھی تب ہی واضح ہو گیا تھا کہ اب بھارت کے مقابل ہم کریز پر کھڑے ہونے کی سکت سے بھی گزر گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا جھنجلاہٹ آمیز یہ سوال صرف سیاسی قیادت کا نہیں ہماری فوجی قیادت کا بھی ترجمان ہے۔ کشمیر کے حوالے سے فوجی قیادت کی سرگرمی اور سنجیدگی دو تین برس پرانی اس تصویرسے مماثل ہے جس میں جنرل باجوہ نیلی یونی فارم میں ملبوس اسکول کی ایک بچی کے ساتھ شطرنج کھیل رہے ہیں اور اعلیٰ کمان کے فوجی مسرت اور انبساط کے ساتھ جنرل صاحب کو چال چلتے دیکھ رہے ہیں۔
70برس سے زائد ہونے کو آرہے ہیں ہم اہل کشمیر اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں۔ یکجہتی کے اظہار سے انکار ممکن نہیں یہ ضروری ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یکجہتی کی اس سیاست کو ہی کافی وشافی سمجھ لیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ کسی بھی عملی اقدام کو بحث سے خارج کردیا گیا ہے بلکہ ہم اپنے اصولی موقف سے بھی پسپائی اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب مسلم قیادتیں اسرائیل کی پا مالی اور فلسطین کا ایک ایک انچ اسرائیل کے تسلط سے آزاد کرانے کی بات کرتی تھیں اب ہم اقوام متحدہ کے دوریاستی حل یعنی ایک یہودی اور دوسری عرب ریاست کے قیام کو ہی الہامی حل قرار دیتے ہوئے اس کے حصول کے لیے کوشاں ہیں جو اسرائیل کے وجود کو قانونی جواز مہیا کرتا ہے۔ اسرائیل کو خطے سے بے دخل کرنے کے بجائے ہم اسرائیل کے ’’ساتھ‘‘ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ کشمیر کے بارے میں بھی ہماری روش یہی ہے۔ شملہ معاہدے میں ہم نے کشمیر کو عالمی مسئلے کے اسٹیٹس سے ہٹاکر دو ملکوں کے بیچ باہمی مسئلہ بنادیا۔ اب ہم اس سے بھی دستبردار ہوگئے ہیں اور عملی طور پر یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ کشمیر کا جو حصہ بھارت کے قبضے میں ہے وہ اس کا اور جو ہمارے قبضے میں ہے وہ ہمارا۔ کیا کسی مسلمان حکمران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کشمیر یا فلسطین کا اس قسم کا حل قبول کرے یا اس کی بات بھی کرے؟ فلسطین یا کشمیر کا ایک انچ بھی ہندو اور یہودی ریاست کو نہیں دیا جاسکتا۔ فلسطین کے حوالے سے خلیفہ عبدالحمید دوم نے ہرزل کو جو خط لکھا تھا وہی ایک مسلم حکمران کے شایاں اور ہر مسلمان کی فکر ہونی چاہیے۔ 1901 میں یہودی رہنما تھیو ڈور ہرزل نے عثمانی خلافت کو فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کے عوض بھاری رقم کی پیشکش کی تھی تب خلیفہ عبدالحمید دوم نے اسے مخاطب کرکے کہا تھا ’’میں فلسطین کی سرزمین کی ایک مٹھی بھی نہیں دے سکتاکیو نکہ وہ میری نہیں ہے بلکہ وہ امت مسلمہ کی ہے جس نے اس سرزمین کے لیے لڑائی کی اور اسے اپنے خون سے سیراب کیا۔ یہودی اپنے لا کھوں اپنے پاس رکھیں اگر ایک دن اسلامی خلافت تباہ ہوگئی تب وہ فلسطین کو بغیر کسی قیمت کے حا صل کرسکیں گے لیکن جب تک میں زندہ ہوں میں اپنے جسم میں تلوار دینا پسند کروں گا بجائے اس کے کہ فلسطین کی زمین اسلامی ریاست سے لے لی جائے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں اپنے جسموں کو کاٹنا شروع نہیں کروں گا جب کہ ہم ابھی زندہ ہیں‘‘ المیہ یہ ہے کہ آج یہود وہنود کے ساتھ مل کر ہمارے حکمران خود ہمارے جسموں کو کاٹ رہے ہیں۔
5اگست 2019 سے مودی حکومت نے کشمیریوں کو ان کے اپنے گھروں میں بدترین اذیت اور ظلم کے ساتھ قید کررکھا ہے لیکن اہل کشمیر کی مدد کرنا تو درکنار پاکستانی حکومت اس تصور کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’اگر کوئی پاکستان سے کشمیر جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کشمیر میں لڑے گا۔ تو جس پہلے شخص پر وہ ظلم کرے گاوہ کشمیری ہوں گے۔ وہ کشمیریوں کے دشمن کی طرح کام کرے گا‘‘ یہ اس پالیسی پر عمل ہے کہ ہم کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی نہ رکنے والی جارحیت کو کمنٹیٹر بکس میں بیٹھے ایک کمنٹیٹر کی طرح دیکھ رہے اور تبصرے کررہے ہیں۔ ’’مسئلہ کشمیر کو یو این قراردادوں اور کشمیر یوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بدترین لاک ڈائون میں ریاستی جبر برداشت کررہے ہیں۔ کشمیریوں کی حقیقی جدوجہد پر سلام بھارت کا بدترین ظلم وستم اور انسانی استحصال برداشت کررہے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ‘‘۔ ’’کشمیریوں کی منزل دور نہیں، حمایت جاری رکھیں گے۔ وزیراعظم عمران خان‘‘۔ ’’کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے اقدامات خطرناک ہیں۔ ہندوستان اپنی تباہی کے بٹن دبا رہا ہے۔ صدرعلوی‘‘۔ اس قسم کے بیانات اور یکجہتی کی سیاست کو ہماری سول اور فوجی قیادت نے مسئلہ کشمیر کے باب میں امرت دھارا سمجھ لیا ہے جو عملی طور پر بھارت کا ساتھ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
کشمیر ہو یا فلسطین یا عالم اسلام کا کوئی اور معاملہ ہم اقوام متحدہ کی سمت دیکھتے ہیں۔ اس کے پیش کردہ حل پر اصرار کرتے ہیں جب کہ اقوام متحدہ وہ مضبوط ترین بیڑی ہے جس کے ذریعے عالم اسلام کو زنجیر کیا گیا ہے۔ جہاں جا کر عالم اسلام کے مسائل کے حل نہ ٹوٹنے والی نیند پر چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ حل کے قریب ہو تو یہ اقوام متحدہ ہی ہے جو بیچ میں کود کر اس حل کو غارت کردیتی ہے۔ دوسری زنجیر وہ فکر ہے جس کے نتیجے میں کشمیر اور فلسطین ہوں یا افغانستان اور عراق اب امت مسلمہ کے مسئلے نہیں قومی مفاد کے مسئلے ہیں۔ اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں مداخلت پاکستان کے قومی مفاد کے لیے مہلک تصور کی جاتی ہے لہٰذا ہم یکجہتی کا اظہار کرسکتے ہیں لمبے چوڑے بیانات دے سکتے ہیں جلسے کرسکتے ہیں لیکن اہل کشمیر کی عملی مدد! ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ 5فروری کو یکجہتی کے اظہار کے لیے وزیراعظم جو جلسہ کرتے ہیں اس کے شرکاء کے معاملے میں بھی ہم ’’چوزی‘‘ ہوگئے ہیںکہ اگلی تین صفوں میں صرف تحریک انصاف کے لوگ ہوں اور وہ بھی جانے مانے۔ کیا اس قدر خوفزدہ قیادت سے کشمیر کی آزادی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کشمیر آزاد ہوگا اور ان شا اللہ ضرور ہوگا مگر یکجہتی کی سیاست کے ذریعے نہیں جہاد کے ذریعے۔