جناح کا وزیر اعظم کے نام خط

539

 محترم وزیر اعظم:
مجھے 14 اگست 1947 کو اپنا کام مکمل کرنے کے فوراً بعد ہی رخصت ہونا پڑا۔ اس امید کے ساتھ کہ سکون سے آرام کروں گا۔ میں تو ایک معمولی سی قبر سے خوش ہوتا۔ جیسا کہ کرسٹینا روز سیٹی نے کہا ہے کہ میں ایک معمولی قبر سے خوش ہوں۔ میرے سرہانے کوئی گلاب نہیں، اور نہ ہی صنوبر کے سایہ دار درخت ہیں۔ میرے اوپر صرف بارش اور شبنم سے دھلی گیلی سبز گھاس ہے۔ ’’مجھے اس بات سے بے چینی ہوئی کہ میری آخری آرام گاہ شاندار پرشکوہ سنگ مرمرسے سجی ہوئی ہے، جو اس ملک کے خزانے پر یقینا ایک بہت بھاری بوجھ رہا ہوگا۔ جہاں 80 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی زندگی بسر کر رہے ہیں‘‘۔
میں یہ خط اپنے پرستار متعدد سینیٹری ورکرز، باغبانوں اور محافظوں کے ساتھ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے، آپ کو لکھ رہا ہوں، جو ہمہ وقت میری قبر کے چاروں طرف عمارت اور باغات، صحن کی صفائی، ہریالی اور پھولوں کی نگہداشت میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ بہت عمدہ کام کرتے ہیں اور میری خواہش ہے کہ وہ یہ بات جان لیں کہ میں ذمے داری سے اپنے فرائض انجام دینے کی ان کی اس لگن پر کتنا فخر محسوس کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے باقی ماندہ عوام بھی اس عظیم ملک کی تعمیر کے لیے کسی بھی مفاد سے بالاتر ہوکر اسی جذبے کے ساتھ مصروف عمل ہوں گے۔
تاہم جب سے مجھے ایک سیکورٹی گارڈ کا خط موصول ہوا جو شاید داخلی دروازوں میں سے کسی ایک پر تعینات ہے، میں انتہائی تکلیف اور اذیت کی حالت میں ہوں۔ اس خط میں لکھا گیا ہے کہ، ’’محترم جناب جناح، میری عمر 70 سال ہے اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں آپ کے آرام گاہ پر ایک سیکورٹی گارڈ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ ہم اس شاندار مادر وطن کا تحفہ دینے پر آپ کاحقیقی طور پر شکریہ ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ آپ ہمیشہ ابدی سکون سے ہمکنار رہیں۔ لیکن مجھے حیرت ہی ہوگی کہ اپنے مزار پر کام کرنے والوں کو ہرگھڑی ہونے والی اذیت اور تکلیف کو جانتے ہوئے بھی آپ کو کبھی سکون مل سکتا ہے۔ میں نجی سیکورٹی گارڈ کی حیثیت سے دس ہزار روپے ماہانہ پر روزانہ 12 گھنٹے کام کرتا ہوں۔ سینیٹری عملے کو 12 گھنٹے کی شفٹ کے لیے 14ہزار روپے ملتے ہیں اور باغبان صبح کی شفٹ میں کام کرنے پر 9ہزار روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں۔ برائے کرم جناب جناح، کیا آپ اپنی قبر سے ایک دن کے لیے اٹھ کر آ سکتے ہیں؟ صرف ہماری حکومت کو یہ بتانے کے لیے کہ آپ کے مزار پر کام کرنے والے ہر دربان، ہر ’مالی‘ اور ہر گارڈ کو کم سے کم قانونی اجرت دی جائے۔ جناب جناح، وی آئی پی مہمانوں کے برعکس اس دن آپ باغبانوں، دربانوں اور آپ کے کمپاؤنڈ کے محافظوں تک ٹہلتے ہوئے آئیں اور اپنی دائمی آرام گاہ پر واپس آنے سے پہلے ہاتھ ہلا کر انہیں تھپتھپائیں اور شاباشی دیں؟ بصد احترام، ایک گارڈ۔
محترم وزیر اعظم، میرے دکھ اور تکلیف سے کہیں زیادہ میرے لیے یہ بات اذیت ناک ہے کہ میرے قریب کام کرنے والے سو سے زیادہ جینوٹوریل ملازمین، محافظ اور مالی قابل رحم حالات میں کام کرتے ہیں۔ وہ دکھ اور اذیت کی زندگی گزارتے ہیں، (اگر اسے زندگی کہا جاسکتا ہے تو)۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کم سے کم اجرت کے قوانین کی پابندی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی شہری سے ذات اور رنگ ونسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ٹھیکیداری کے تحت کام کرنے والے 51 صفائی کرنے والے ملازمین میں سے 47 غیر مسلم ہیں۔ کیا مسلمان اب کسی صفائی کے کام کے لیے درخواست نہیں دیتے ہیں؟
کیا میں تجویز کرسکتا ہوں کہ آپ کے اگلے خط سے پہلے، آپ ایک حکم جاری کریں جس میں معاہدہ کے تحت کام کرنے والے تمام ملازمین (مزار پر کام کرنے والے، جینوٹوریل اسٹاف، محافظ اور مالی) کی کم سے کم اجرت 8 گھنٹے کی شفٹ کے لیے سات ہزار پانچ سو روپے اور جو 12 گھنٹے کی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں ان کی اجرت 35 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ ان احکامات میں یہ بھی لازمی شامل ہو کہ ان ملازمین میں سے ہر ایک کو ای او بی آئی کے ساتھ رجسٹر اور میڈیکل انشورنس بھی دیا جائے۔
محترم وزیر اعظم، کوئی بھی قوم اس بات سے پہچانی جاتی ہے کہ وہ اپنے عام شہریوں خاص طور پر کمزور اور غیر محفوظ لوگوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرتی ہے۔ پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خود کو مالا مال کرنے والی متکبر اشرافیہ اور پارلیمینٹرین غربت میں پسے ہوئے غریبوں کو کم سے کم قانونی اجرت بھی دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ مزار کے چمکتے ہوئے سنگ مرمر اور اس کے نگراں افراد کی اداس زندگی کے بیچ اس بھاری خلیج کو پاٹنے کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔
پاکستان پائندہ باد
مخلص، ایم اے جناح