میانمر: بڑے پیمانے پر احتجاج شروع انٹر نیٹ معطل

313
ینگون: فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والے شہری اور پولیس آمنے سامنے کھڑے ہیں

 

نیپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر میں فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ زور پکڑنے لگا۔ خبررساں اداروں کے مطابق ینگون یونیورسٹی کے نزدیک ہزاروں افراد نے آمریت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ فوجی بغاوت کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلی۔ مظاہرین نے فوجی آمریت کے خاتمے کے نعرے لگائے۔ مظاہرین نے معزول رہنماؤں آنگ سان سوچی اور ون مائنٹ کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں، جن کی پارٹی نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی تھی۔ کئی لوگوں نے سرخ ہیڈ بینڈ پہنے ہوئے تھے، جو نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا رنگ ہے۔ انہوں نے 3 انگلیوں سے سلامی کے انداز میں ہاتھ اٹھایا۔ دراصل یہ اشارہ تھائی جمہوریت نواز مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کی علامت ہے۔ مظاہرین کے کم سے کم 2 گروہوں نے میانمر کے مرکزی شہر کے دیگر حصوں میں مارچ کیا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق منڈالے میں تقریباً 2ہزار افراد نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے کہا کہ یہاں جو کچھ ہوا ہے، وہ دنیا کو جاننے کی ضرورت ہے اور ہم بتا کر رہیں گے۔ دوسری جانب فوج نے احتجاج کو روکنے کے لیے پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی ہے۔ نیٹ بلاکس انٹرنیٹ آبزرویٹری کے مطابق رابطے کا معیار پہلے ہی 16 فیصد تک گر چکا ہے، جب کہ فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام بند ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بلیک آؤٹ کو گھناؤنا اور ناقابل قبول عمل قرار دیا ہے۔ میانمر میں فوجی بغاوت کے بعد پولیس نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف غیر قانونی طور پر مواصلاتی آلات کی درآمد کے الزامات عائد کیے ہیں۔ انہیں تفتیش کے لیے 15 فروری تک حراست میں رکھا جائے گا۔ پولیس نے 75 سالہ آنگ سان سوچی کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تفصیلات عدالت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دارالحکومت میں ان کے گھر کی تلاشی کے دوران 6 واکی ٹاکی ریڈیو ملے ہیں۔ خیال رہے کہ میانمر میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔