اسلام پسندوں کی کم نظری؟

1996

روزنامہ ڈان کے کالم نگار ندیم ایف پراچہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلام پسند مفکرین کے راسخ العقیدہ دشمنوں میں سے ہیں۔ انہیں ان تمام چیزوں سے دلی نفرت ہے اور یہ نفرت ان کے کالموں میں اُبل اُبل کر اپنا اظہار کرتی ہے۔ ان کا 3 جنوری 2021ء کا کالم The Islamist Myopia یا اسلام پسندوں کی کم نظری اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
اس کالم میں ندیم ایف پراچہ نے اسلام اور اسلام پسندوں پر اپنے تئیں شدید حملے کیے ہیں۔ مثلاً ایک بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ جدیدیت کے چیلنج کا جواب دینے اور اسلام کو Idealize کرنے والے مسلم مفکرین ماضی کی رومانیت کا شکار ہیں، یعنی ماضی کو Romanticize کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کسی مفکر، دانش ور کی مثال نہیں دی۔ چناں چہ ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ہر اسلام پسند ماضی کی رومانویت یا مثالیت پسندی میں مبتلا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عہدِ حاضر کی فلمیں، ڈرامے، موسیقی اور شاعری رومانویت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن مسلمان اگر اپنے شاندار، بے مثال اور لاجواب ماضی کے رومانس میں مبتلا ہیں تو ندیم ایف پراچہ اور ان جیسے لوگ اس عمل کو ایک گالی اور ایک بیماری بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ندیم ایف پراچہ اور ان جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ مسلمان اپنے ماضی کے عشق میں کیوں مبتلا ہیں؟
اصول ہے کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ مسلمانوں کا ماضی ان کی اصل ہے۔ یہ ہماری ’’ذاتی رائے‘‘ نہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ بہترین ہے اور اس کے بعد میرے بعد کا زمانہ یعنی خلافت راشدہ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنے ماضی کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے وہ اپنی ’’اصل‘‘ سے مربوط ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کی دو حرکتیں ہیں۔ ایک حرکت ’’مرکزجُو‘‘ کہلاتی ہے اور دوسری ’’مرکز گریز‘‘۔ مرکز گریز حرکت مسلمانوں کو ان کے ماضی اور ان کی اصل سے کاٹتی ہے اور ’’مرکز جُو‘‘ حرکت مسلمانوں کو ان کی اصل سے جوڑتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہر مجدد ’’مرکز جُو‘‘ حرکت کی علامت ہے۔ مجدد آتا ہے اور مسلمانوں کو قرآن و سنت اور رسول اکرمؐ اور خلافت راشدہ کے زمانے سے جوڑتا ہے۔ امام غزالی نے یہی کیا۔ مجدد الف ثانی نے یہی کیا۔ شاہ ولی اللہ نے یہی کیا۔ مولانا مودودی نے یہی کیا۔
تاریخ کوئی جامد عمل نہیں۔ اسلامی تاریخ بھی جامد نہیں لیکن اسلامی تاریخ کی ایک خاص الخاص بات یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور رہے گا، جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا دور دورہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی لیکن اس کے بعد زمانہ ایک بار پھر خلافت علی منہاج البنوہ کی جانب لوٹے گا۔ اس سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کی تو تاریخ بھی ماضی کے عشق میں مبتلا ہے۔ چناں چہ مسلمان اپنے ماضی کی محبت میں کیوں گرفتار نہیں ہوں گے۔
اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں کا ماضی حسین ترین ہے۔ بے مثال ہے۔ لاجواب ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی فرد رسول اکرمؐ کی طرح نہیں ہوا۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی ابوبکرؓ موجود نہیں۔ دنیا کی تاریخ کو کوئی عمرؓ میسر نہیں۔ دنیا کی تاریخ کو کوئی عثمانؓ فراہم نہیں۔ دنیا کی تاریخ کو کوئی علیؓ دستیاب نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں صحابہ کرام جیسا گروہ کبھی موجود نہیں رہا۔ اس تناظر میں مسلمان اپنے ماضی کو دیکھتے ہیں تو کیا بُرا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں مسلمان اپنے ماضی کی محبت میں مبتلا ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟۔
اس سلسلے کی ایک بہت ہی بڑی دلیل یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی اپنے ماضی کے رومانس میں مبتلا نہیں۔ ہندو پانچ ہزار سال پرانے ’’رام راج‘‘ کے رومانس میں مبتلا ہیں اور اس کا احیا چاہتے ہیں۔ یہودی سیدنا سلیمانؑ کی بادشاہت کے رومانس میں مبتلا ہیں اور اسرائیل قائم کرکے انہوں نے اپنے تئیں ماضی ہی کا احیا کیا ہے۔ عیسائی سیدنا عیسیٰؑ کے زمانے کو بہترین سمجھتے ہیں اور وہ صدیوں سے سیدنا عیسیٰؑ کی دنیا میں دوبارہ آمد کے منتظر ہیں۔ جدید مغربی تہذیب خود کو یونانی تہذیب کا وارث سمجھتی ہے اور ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کی صورت میں اس نے اپنے ماضی ہی کی بازیافت کی ہے۔ یہ ہماری نہیں مغربی کے اہل فکر کی رائے ہے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو کون ہے جو اپنے ماضی کے رومان میں مبتلا نہیں۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل چپڑ قناتیے اور مغرب کے کم نظر دانش ور اعتراض کرتے ہیں تو صرف مسلمانوں پر۔ یہ ندیم ایف پراچہ کے کالم کے ایک نکتے کا سرسری اور مختصر جواب ہوا۔
ندیم ایف پراچہ نے اپنے کالم میں ایک اور غلط اور ہولناک بات یہ لکھی ہے کہ اسلام کا ماضی Rationality یا ’’عقل پرستی‘‘ پر مبنی تھا۔ اسلام کے بارے میں اس سے زیادہ شرمناک اور غلط بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اسلام عقل کو ایک اہم اور جائز ’’آلہ‘‘ تصور کرتا ہے مگر اسلام چاہتا ہے کہ انسانی عقل ’’خود مختار‘‘ اور ’’آزاد‘‘ نہ ہو بلکہ وہ وحی کی بالادستی کو قبول کرے۔ جو عقل وحی کی بالادستی کو قبول کرتی ہے وہ ’’انسانی‘‘ ہے۔ وہ ’’رحمانی‘‘ ہے۔ لیکن جو عقل وحی کی بالادستی کو قبول نہیں کرتی وہ ’’شیطانی‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے مغرب نے عقل کے جس تصور کو عام کیا ہے وہ وحی کی منکر ’’شیطانی عقل‘‘ ہے اور ندیم ایف پراچہ جیسے سیکولر لکھنے والے اسلام کو اس ’’شیطانی عقل‘‘ پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح مغرب میں عقل نے وحی کی بالادستی کو مسترد کردیا اسی طرح اسلامی معاشروں اور اسلامی تہذیب میں بھی عقل وحی کی بالادستی کو مسترد کرکے ’’آزاد‘‘ ’’خود مختار‘‘ اور ’’خود مکتفی‘‘ ہوجائے وہ وحی کی روشنی کی ’’محتاج‘‘ نہ رہے۔
اس سلسلے میں بات کو مزید مدلل بنانے میں اقبال کی شاعری ہمارے بڑا کام آسکتی ہے۔ اقبال ہماری تاریخ کی ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو ’’جدید‘‘ کو بھی جانتے ہیں اور ’’قدیم‘‘ سے بھی آگاہ ہیں۔ کم از کم ان کی شاعری کا معاملہ یہی ہے۔ چوں کہ اقبال کے زمانے میں عقل کا مغربی تصور عام ہوگیا تھا اس لیے اقبال نے اپنی شاعری میں عقل کے مغربی تصور کے خلاف زبردست جنگ لڑی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں خود مختار اور آزاد عقل کی مذمت بھی کی ہے اور اس کی نارسائیوں کو بھی کھل کر بیان کیا ہے۔ آئیے اقبال کے کچھ شعروں پر نظر ڈالتے ہیں۔ اقبال لکھتے ہیں۔
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
٭٭
عقل عیّار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
٭٭
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
٭٭
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
٭٭
خرد نے کہہ بھی دیا لاالٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
٭٭
عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
٭٭
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
اسلامی تہذیب میں عقل کے مقابلے میں ’’دل‘‘ اور ’’عشق‘‘ کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ دل کو حکمت کا گھر کہا گیا ہے۔ آئیے اس سلسلے میں اقبال کی نظم ’’عقل و دل‘‘ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثلِ خضرِ خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسر کتابِ ہستی کی
مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں
بوند تو خون کی ہے اک لیکن
غیرتِ لعل بے بہا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں
رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جُو خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفلِ صداقت کی
حُسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش ربّ جلیل کا ہوں میں
اس سلسلے میں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ اسی نظم میں عقل کا مطلب رحمانی عقل ہے ’’شیطانی عقل‘‘ نہیں۔ اس کے باوجود اقبال عقل کی ’’نارسائی‘‘ اور دل کی ’’رسائی‘‘ پر کلام کررہے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رحمانی عقل اتنی نارسا ہے تو شیطانی عقل کتنی نارسا ہوگی۔
ندیم ایف پراچہ نے اپنے کالم میں ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ مسلمان مغرب تہذیب میں جذب ہوجاتے ہیں مگر جب وہ مغربی معاشروں میں ’’ترقی‘‘ نہیں کرپاتے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ’’جدیدیت‘‘ ان کا راستہ روک رہی ہے اور وہ جدیدیت کو مسترد کرکے اسلام کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بھی سیکولر اور لبرل مغرب کا موقف ہے۔ ورنہ اقبال سو سال پہلے کہہ گئے ہیں۔
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
بہت سے مغرب زدہ مسلمانوں کا معاملہ یہی ہے۔ وہ مغرب کی طرف چلے بھی جاتے ہیں تو تلاطم ہائے دریا انہیں ان کی اصل کی جانب متوجہ کردیتا ہے اور انہیں ایک قطرے سے موتی بنادیتا ہے۔