مسلمانوں کی قاتل سوچی بدھسٹ جنرل کے ہاتھوں گرفتار

661

میانمار میں فوجی قیادت کے ساتھ مسلمانوں کے قتل میں شریک آنگ سان سوچی کو اسی فوجی قیادت نے گرفتار کر لیا جن کے ساتھ مل کر وہ مسلمانوں کا قتل ِ عام کر رہی تھیں، سوچی کو امن کا نوبل انعام بھی ملا ہے اور وہ میانمار میں فوجی قیادت کے خلاف جمہوریت کے لیے جدو جہُدکی ہیروئن بھی کہلاتی ہیں۔ دنیا بھر میں میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کی رہائی کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ میانمار میں 2011 میں 50برسوں تک فوجی آمریت قائم رہنے کے بعد آنگ سان سوچی کی قیادت میں ملک میں سیاسی اصلاحات کا عمل شروع ہوا اور کئی دہائیوں بعد عام انتخابات کرائے گئے اور ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ میانمار کی فوجی قیادت نے 3فروری کو سوچی پر الزام لگایا کہ ان کے گھر سے بھاری اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ چین کا بیان بہت سے سوالات پیدا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں گلوبل ٹائم نیوز کا کہنا ہے کہ!
’’چین کو امید ہے بیرونی مداخلت کے بغیر Domestic Negotiations کی مدد سے مسائل حل ہو جائیں گے‘‘۔ لیکن امریکا نے صرف یہ دھمکی دی ہے کہ میانمار کے خلاف تجارتی پابندی عائد کر دی جائے گی۔ یورپی ممالک بھی آنگ سان سوچی کے تختے پر بے وفا اور ہرجائی ہونے کا الزام لگا رہے ہیں!
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ سوچی کیا جمہوری لیڈر تھیں یا انہوں نے فوج سے ساز باز کر رکھا تھا اس لیے وہ نوبل انعام کی بھی حقدار نہیں ہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق فوجی حکمران اور آنگ سان سوچی باہمی گفتگو سے مسائل کو حل کریں۔ آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے منگل کو اپنی قائد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ این ایل ڈی نے فوج سے نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ کیا جس میں این ایل ڈی نے 80 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔
سوچی جو ملک کی منتخب حکومت کی سربراہی کر رہی تھیں لیکن ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا وہ حکومت کی کونسلر کے طور پر کام کر رہی تھیں ان کو فوج کی حراست میں لیے جانے کے بعد کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں منتخب اراکین بھی فوجی بغاوت کے بعد ملک کے دارالحکومت میں اپنے رہائشی علاقے میں گرفتار ہیں۔ لیکن سوچی کی اتنی مقبولیت کے باوجود ملک میں کہیں سے بھی کسی بڑے عوامی مظاہرے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فکر مند نہ ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا بہت سے ارکان پارلیمان کو دارالحکومت میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ہی نظر بند کر دیا گیا ہے لیکن این ایل ڈی کے ایک رکن نے اسے ایک کھلا حراستی مرکز قرار دیا ہے۔ آنگ سان سوچی جنہوں نے 1989 سے 2010 تک بیس سال فوج کی حراست میں گزرے تھے، انہوں نے گرفتاری سے قبل اپنے حامیوں کے نام ایک خط میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے کا کہا تھا۔ اور خبردار کیا تھا کہ فوجی بغاوت کے بعد ملک پھر فوجی آمریت کی طرف چلا جائے گا۔
میانمار کے آئین کے تحت آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ آئین میں درج ہے کہ غیر ملکی بچوں کے والدین ملک کے صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ آنگ سوچی کے شوہر برطانوی شہریت کے حامل تھے اور ان کے بچے بھی برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔ لیکن این ایل ڈی کی 2015 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے عملی طور پر انہیں ہی ملک کے سربراہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ادھر ملک میں یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد امریکا کے صدر جو بائیڈن نے میانمار پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔ امریکی صدر جو بائیڈن، اقوام متحدہ اور برطانیہ نے بھی فوجی بغاوت کی مذمت کی ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم میانمار میں ہونے والی پیش رفت کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ ان پابندیوں کو دوبارہ لگانے پر غور کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں بھی جمہوریت پر حملہ کیا جائے گا، امریکا اس کے خلاف کھڑا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے میانمار کی فوج کے اس اقدام کو ’جمہوری اصلاحات کے لیے شدید دھچکا‘ قرار دیا ہے اور سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس بھی ہوا لیکن عجیب خاموشی ہے برطانیہ میں وزیر اعظم بورس جانسن نے بغاوت اور آنگ سان سوچی کی ’غیر قانونی قید‘ کی مذمت کی ہے۔ جبکہ یورپی رہنماؤں نے بھی اسی طرح کے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔ بھارت کمزور سا بیان دے کر امریکا کی جانب دیکھ رہا ہے۔
چین جو اس سے قبل میانمار میں بین الاقوامی اور خاص طور پر بھارت کی مداخلت کی مخالفت کرچکا ہے، اس نے تمام فریقوں سے ’اختلافات کو حل کرنے‘ پر زور دیا ہے۔ جبکہ کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور فلپائن سمیت کچھ علاقائی طاقتوں نے کہا ہے کہ یہ ایک ’داخلی معاملہ‘ ہے۔ چین کے ساتھ سوچی کے بہت گہرے تعلقات تھے لیکن انہوں نے خود کو بھارت کے بھی بہت قریب رکھا ہوا تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف بھارتی دہشت گردوں اور غنڈوں سے مدد لے رکھی تھی اور وہ بھارت کے خلاف آسام میں اسلامی تحریک کی سخت مخالف تھیں۔ انہیں بین الاقوامی سطح پر جمہوریت کی علامت قرار دیا جاتا تھا اور انہیں 1991 میں امن کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ جب فوج نے ملک میں اقلیتی مسلم روہنگیا آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو سوچی فوج کے ساتھ کھڑی تھی جس سے ان کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوئی۔ ان کے سابق حامیوں نے ان پر تنقید کی کہ انہوں نے فوجی اقدامات کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی اس درندگی کے خلاف کوئی اقدام کیا۔ میانمار میں موجودہ قابض حکمران بھی مسلمانوں کے مخالف ہیں اور مسلمان کے عسکری ونگ سے خوفزدہ بھی ہیں اسی لیے وہ پاکستان اور بنگلا دیش سے مدد حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پاکستان سے اسلحہ کی خریداری میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ میانمار کے حالات پر یورپ اور امریکا اور دیگر ممالک پھونک پھونک کے قدم آگے بڑھا رہے ہیں اور پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے وہ ان حالات سے پورا فائدہ اُٹھائے اور ملک کو خلفشار سے محفوظ کرنے کی ہر ممکن کو شش کر ے۔