قبضہ گروپ کے خلاف کارروائی یا سیاسی دشمنی! – حامد ریاض ڈوگر

777

لاہور کے ترقیاتی ادارے ایل ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ اتوار کی ہفتہ وار تعطیل کے روز ایک گرینڈ آپریشن کیا، جس کے دوران نواز لیگ کے رہنمائوں کھوکھر برادران کے ملکیتی ’’کھوکھر پیلس‘‘ کے عقبی حصے میں دروازہ اور دیوار، سیف مارکیٹ کی دکانیں، کھوکھر برادران کے برادرِ نسبتی اکمل کھوکھر اور بھانجے طاہر جاوید کے مکانات مسمار کردیئے۔ یوں حکام کے دعوے کے مطابق 38 کنال سرکاری زمین لیگی رہنمائوں کے قبضے سے واگزار کرالی گئی جس کی قیمت سوا ارب روپے بتائی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائی کلکٹر اشمال کے فیصلے کی روشنی میں کی گئی۔ کھوکھر برادران نے جعلسازی کے ذریعے زمین پر قبضہ کر رکھا تھا، قابضین کو زمین پر ناجائز قبضہ چھوڑنے کے نوٹس بھی جاری کیے گئے، مگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا، جس پر یہ گرینڈ آپریشن کرکے قبضہ مافیا سے سرکاری اراضی واگزار کرالی گئی۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ انتظامیہ قبل ازیں بھی اس زمین کو چھڑانے کی ایک کوشش کرچکی تھی، مگر کھوکھر برادران، ان کے کارندوں اور موقع پر موجود وکلا نے شدید مزاحمت کے ذریعے یہ کوشش ناکام بنادی تھی، چنانچہ اب تازہ کارروائی کو ’’گرینڈ آپریشن‘‘ کا نام دیا گیا، جس میں ایل ڈی اے، ضلعی انتظامیہ، اور پولیس کے اعلیٰ افسران و اہلکاروں کی بہت تعداد نے حصہ لیا، جب کہ کنکریٹ کی بلند و بالا اور مضبوط عمارتوں کو مسمار کرنے کے لیے بھاری مشینری بھی استعمال کی گئی۔ انتظامیہ کی انہی زبردست تیاریوں کے پیش نظر کھوکھر برادران اور ان کے کارندوں نے مقابلے اور مزاحمت کی ہمت نہیں کی، تاہم سیف الملوک کھوکھر نے یہ الزام ضرور عائد کیا ہے کہ تمام زمین ہماری ہے اور ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ افضل کھوکھر نے بھی اس کارروائی کو نوازشریف کا ساتھ دینے کی سزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی ادارے انتقامی سیاست کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی صاحبزادی اور نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے اس کارروائی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کے ساتھ وفا کے جرم میں انتقام کا نشانہ بننے والے تمام ساتھیوں کو سلام پیش کرتی ہوں، ہر ظلم کا حساب ہوگا، ایک قانون طاقتور کے لیے ہے جو بنی گالہ کے ناجائز محل کو قانونی بنادیتا ہے، دوسرا قانون مخالفین کے لیے ہے جس کے شر سے اپوزیشن کے گھر محفوظ نہیں، ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ مریم نواز نے کھوکھر برادران کو نواز لیگ کا بہت بڑا سرمایہ قرار دیتے ہوئے شاباش دی کہ انہوں نے ظلم و انتقام کا سامنا تو کیا مگر پیچھے ہٹے، نہ ہی نوازشریف سے بے وفائی کی۔ نواز لیگ کے دیگر رہنمائوں خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب، رانا ثناء اللہ، خواجہ عمران نذیر اور رمضان صدیق بھٹی وغیرہ نے بھی کھوکھر پیلس کے اطراف میں املاک مسمار کرنے کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ چور عوام دشمن ظالم حکومت سیاسی انتقام میں اندھی ہوکر پاگل پن کی انتہا پر اتر آئی ہے۔ سیف کوکھر کو نوازشریف اور شہبازشریف سے وفاداری کی سزا دی جارہی ہے، عمران صاحب! ایسے فسطائی ہتھکنڈوں اور آمرانہ اقدامات سے آپ کی کرسی نہیں بچے گی، آپ کا یوم حساب قریب ہے۔ عمران خان بغضِ نوازشریف میں اندھے ہوچکے ہیں، مسلم لیگ (ن) بزدار حکومت کے ناقابلِ معافی جرم کو ہرگز فراموش نہیں کرے گی۔ پنجاب پولیس اور ضلعی انتظامیہ ’’سلطنتِ عمرانیہ‘‘ کے آلہ کار بننے سے باز رہیں۔ معاملے کو قومی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں میں اٹھایا جائے گا اور ہر سطح پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا، اپنی پوری زندگی میں اتنے کم ظرف حکمران نہیں دیکھے، جو لوگ غنڈہ گردی کررہے ہیں ان کو حساب دینا ہوگا، دادا گیری جاری ہے، بدمعاشی نہیں مانتے۔کھوکھر برادران پرانے ساتھی ہیں، ان کا جرم یہی ہے کہ یہ نون لیگ، پی ڈی ایم اور کاروانِ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اس معاملے میں کب خاموش رہنے والی تھیں! چنانچہ صوبائی دارالحکومت سے باہر اپنے ضلع سیالکوٹ میں ہونے کے باوجود انہوں نے وہیں کے صحافیوں کو طلب کرکے فوری جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر بغیر کسی سیاسی دبائو کے قبضہ مافیا کے خلاف میرٹ پر آپریشن کیا جارہا ہے اور سرکاری اراضی پر غیر قانونی قبضے اور سیاست کو کاروبار بنانے والوں کے خلاف آپریشن پوری قوت سے جاری رہے گا، پنجاب میں شاہی خاندان قبضہ مافیاز کی پشت پناہی کرتا رہا، نون لیگ کے 50 سرکردہ رہنما زمینوں پر قبضے میں ملوث ہیں، اینٹی کرپشن پنجاب نے صرف ان 50 نون لیگیوں سے 480 ایکڑ سے زائد زمین واگزار کروائی اور 3 ارب 42 کروڑ روپے سے زائد ریکوری بھی کی، ہر بڑے اسکینڈل کے پیچھے ظل سبحانی کے کارندے پائے جاتے ہیں، کرپشن کے دلدادہ شاہی خاندان نے 2013ء کے بعد، رائے ونڈ میں 446 ایکڑ قیمتی اراضی ہتھیالی جس کی تحقیقات نیب میں چل رہی ہیں۔ ظل سبحانی نے پہلے لاہور کا ماسٹر پلان بدلا اور قیمتی زمین کوڑیوں کے بھائو خریدی، پیسوں کے پجاریوں نے اپنے فائدے کے لیے قوم کو اربوں کا چونا لگایا۔ ہمارا پنجاب جو پورے پاکستان کا فوڈ باسکٹ تھا، شہبازشریف نے قیمتی زرعی رقبوں پر رہائشی کالونیوں کے قیام کی پالیسی اپناکر غریب کسان سے روٹی کا نوالہ چھین لیا، پنجاب جیسے خوشحال زرعی معیشت کے حامل صوبے کو صنعتی صوبہ بنانے کے نام پر لوٹا گیا، کھوکھر برادران کے خلاف لاہور میں زمین کی واگزاری کا بڑا آپریشن کیا گیا، ضلعی انتظامیہ لاہور نے 38 کنال سرکار کی زمین کھوکھر برادران سے واگزار کروالی۔

اس میں شک نہیں کہ کراچی اور دیگر شہروں کی طرح لاہور میں بھی سیاسی رہنمائوں اور اعلیٰ پولیس و انتظامی افسران کی سرپرستی میں سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ شریف برادران کے جاتی عمرہ کے محلات بھی اس الزام سے بری الذمہ نہیں، ان محلات کے لیے اراضی کے حصول سے لے کر تعمیرات کے دوران سرکاری وسائل کے استعمال تک ہر مرحلے پر لاقانونیت اور حکومتی اختیارات کے ناجائز استعمال کے ثبوت موجود ہیں، جس کے خلاف نوازشریف کے 1997ء سے 1999ء تک کے دور اقتدار میں اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے بارہا احتجاج بھی کیا، اور ان کی قیادت میں جماعت کے کارکنوں نے جاتی عمرہ کے باہر دھرنا بھی دیا۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خاں نے بھی 2013ء سے 2018ء کے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں جاتی عمرہ میں سرکاری وسائل کے استعمال کے خلاف نوازشریف حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ لاہور میں ماڈل ٹائون کے ایچ بلاک میں شریف برادران نے اپنے گھروں کے سامنے سڑکوں اور پارک کو اپنے مصرف میں لاکر وہاں جنگلے اور گیٹ لگا لیے تھے، جن کو ہٹانے کے لیے پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو نے کھوکھر برادران کے خلاف آپریشن کی طرز کی کارروائی کی تھی جس پر خاصا ہنگامہ بھی نواز لیگ کی جانب سے برپا کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ بہت سے سیاسی لیڈر اور ارکانِ اسمبلی سرکاری زمینوں پر قبضے میں ملوث ہیں، مگر یہ الزام صرف نواز لیگ تک محدود نہیں۔ پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کے قائدین بھی حسبِ توفیق بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں، بلکہ اگر وزیراعظم اپنے گھر تحریک انصاف سے کارروائی کا آغاز کریں تو انہیں اپنی پارٹی میں بھی قبضہ گروپ کے لوگ تلاش کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔

اس ضمن میں ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاسی لوگ اگر قبضہ گروپوں میں شامل یا اُن کے سرپرست ہیں تو پولیس اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران اور ادنیٰ اہلکار بھی حصہ بقدرِ جثہ وصول کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں۔ حکومت اگر قبضہ گروپوں سے قوم کو نجات دلانے اور ملکی اثاثے اُن سے محفوظ رکھنے میں سنجیدہ ہے تو کسی بھی دوسری کارروائی یا آپریشن سے قبل متعلقہ سرکاری افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کرکے انہیں نشانِ عبرت بنایا جانا چاہیے، جن کو قومی خزانے سے تنخواہ اور بھاری مراعات اس کام کے لیے دی جاتی ہیں کہ وہ قومی املاک کو ناجائز قابضین سے محفوظ رکھیں، اور کوئی غیر قانونی کام نہ ہونے دیں۔ مگر وہ خود رشوت وصول کرکے لوگوں کو سرکاری زمینوں پر قبضے اور ناجائز کاموں کا راستہ دکھاتے رہے ہیں اور دکھا رہے ہیں… حکومت کو سب سے پہلے ان کو پکڑنا اور عبرتناک سزائیں دینا ہوں گی، ورنہ چند سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں کو محض دکھاوا اور سیاسی انتقام ہی قرار دیا جائے گا۔