ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کچھ قافلے کے ساتھ

616

وزیر دفاع پرویز خان خٹک نے کہا ہے کہ: ’’میں چاہوں تو عمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، میں جس کا ساتھ دوں وہ آسمان پر اور جس سے اختیار لے لوں تو وہ تحت الثریٰ میں پہنچ جاتا ہے۔ اپوزیشن میری عزت کرتی ہے اس لیے وہ بھی ارکان اسمبلی کا خیال رکھتے ہیں، یہ میری محنت اور کوشش ہے کہ آج میں پورے پاکستان سے مقابلہ کر رہا ہوں، عمران خان کے مجھ پر بہت احسانات ہیں، میں ان کا مقروض ہوں اس لیے ان کے ساتھ ایسا نہیں کروں گا‘‘۔
پرویز خٹک کے اس بیان میں ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ یہ پیغام وزیر اعظم کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے ہے یا اپنی کم ظرفی کے مظاہرے کے ثبوت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایک ایسا شخص جس کی شہرت محض عمران خان کی مرہونِ منت رہی ہو، جسے 5 برس تک ایک صوبے کی آئینی قیادت سونپی ہو اور دوسری کامیابی پر اس کی عزت و تکریم میں مزید اضافہ نصیب ہوا ہو وہ آج اپنے ایک دھمکی آمیز دوستی کے دعوے کے ساتھ یہ کہتا نظر آئے کہ وہ اپنے ایک اشارہ ابرو پر عمران خان کو منوں مٹی کے اندر دفنا سکتا ہے اور جب چاہے وہ موجودہ حکومت کا بوریا بستر گول کر سکتا ہے، ایک ایسا پیغام ہے جس میں دوستی کی بو باس تو کیا، دشمنی کی طمطراق بھی دکھائی نہیں دیتی۔ انہوں نے تو کھلے دشمن کی طرح بات کرنے کے بجائے منافقانہ روش کو اپناتے ہوئے اپنے محسن کو ان کی اوقات یاد دلانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے یہ سمجھایا ہے کہ وہ (عمران خان) نہیں بلکہ پورا پاکستان ’’میں‘‘ یعنی پرویز خٹک سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ کہنا کہ اپوزیشن ان کی عزت کرتی ہے، ایک دھمکی آمیز پیغام ہے جس میں بین السطور بات یہی ہے کہ وہ ’’عزت‘‘ دینے والوں کے ساتھ کسی وقت بھی رشتہ ’’منافقت‘‘ استوار کر سکتے ہیں۔
ہر بات کے پس پردہ کچھ ایسے حقائق ہوتے ہیں جو انسان کی پسند اور ناپسند کو کسی وقت بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی نہایت تھرڈ کلاس کار کردگی کی وجہ سے پورے ملک کی طرح خود پرویز خٹک کے علاقے میں بھی فضا پی ٹی آئی کے خلاف ہو چکی ہے۔ ایک مصدقہ خبر کے مطابق پرویز خٹک خاندان کے اختلافات نے نوشہرہ کا سیاسی نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، صوبائی وزیر آبپاشی لیاقت خان خٹک کے بیٹے اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھتیجے سابق تحصیل ناظم نوشہرہ احد خٹک کا نوشہرہ کلاں میں بھر پور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ نوشہرہ کلاں کی چاروں یونین کونسلوں کے سابق ناظمین، کونسلرز، ڈسٹرکٹ ارکان اور نوشہرہ کلاں کے معززین نے احد خٹک اور لیاقت خٹک کو آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل تشکیل دینے کا اختیار دے دیا۔
ہوتا یہی ہے کہ جب زمین پیروں کے نیچے سے سرکنے لگتی ہے تو پھر دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی اب دنیا میں دوستوں سے وفاداریوں کی باتیں صرف کتابی سی ہو کر رہ گئی ہیں اس لیے کہ فی زمانہ انسان کا سب سے عزیز ترین دوست اس کا اپنا ذاتی مفاد بن کر رہ گیا۔ پرویز خٹک کا ماضی ہو یا اس وقت موجودہ حکومت کی اپنی کابینہ میں شامل سارے سنپولیے، سب کے سب اپنے اپنے پر تولے بیٹھے ہیں اور کچھ پتا نہیں کہ کب اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب پرواز کر جائیں یا ڈس لینے میں کامیاب ہو جائیں۔
پرویز خٹک ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اپوزیشن والے ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ منافقین ہوتے ہی ایسے ہیں، وہ جس کے پاس بھی ہوتے ہیں ان سے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو آپ ہی کے ساتھ ہیں، ’’اُن‘‘ کے ساتھ تو ہم مذاق کر رہے ہیں۔ خٹک صاحب پہلے بھی بہت ساروں کے ساتھ اسی قسم کا مذاق فرماتے رہے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ ایسا مذاق کرتے رہنا ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے اور جب انسان کے مزاج میں بدلتے حالات کے ساتھ بدل جانا بن جاتا ہے تو سنپولیے ہوں یا مارِ آستین، اس کے زہر کی کھولن انہیں ڈسنے پر اکسانا شروع کر دیتی ہے اور پھر وہ اسی قسم کی باتیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس قسم کی باتیں پرویز خٹک کی جانب سے قوم کے سامنے آ رہی ہیں۔
جو شخص اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ پورے پاکستان کو اپنے سینگوں پر اٹھائے ہوئے ہے، وہ اپنے زور کو ایک مرتبہ نہیں بار بار آزمایا کرتا ہے۔ یہ بھی عجب بات یہ ہے کہ وہ اپنے فن میں اتنا طاق ہوتا ہے کہ وہ ہر گروہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ جب تک دو طرفہ مفادات کا سلسلہ جاری رہے گا ایسے مار آستین پل پل کر موٹے ہوتے جائیں گے اس لیے موجودہ قیادت کو اپنی مفاد پرستانہ حکمت عملی میں تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ان سارے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ

مڑ مڑ کے دیکھیے کوئی رہ تو نہیں گیا
ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کچھ قافلے کیتھ