تیری اک نگاہ کی بات ہے میری حکومت کاسوال ہے

826

ایک تصویرزیر نظر ہے ۔امریکا کے نو منتخب صدر جو با ئیڈن ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں اور ان کے قدموں میںایک کتا بیٹھا ہے۔ ہمارے ہر حکمران کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی امریکی صدر کے اتنا ہی قریب ہوتا۔کوئی بھی امریکی صدر آئے۔ ہمارا پہلا تجزیہ یا پہلی فکر یہی ہوتی ہے کہ وہ پاکستان پر مہربان ہوگا یا نا مہربان۔ ابتدائی تجزیے یہی ہوتے ہیں کہ نو منتخب امریکی صدر پاکستان سے خوشگوار تعلقات چا ہتے ہیں۔ انہیں خطے میںپا کستان کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ با ئیڈن کی آمد کے بعد بھی اسی طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں۔ بش آئے تو ان کے بارے میں بھی ہماری رائے یہی تھی۔ انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میںبرباد کرکے رکھ دیا تو اوباما کی مسکراتی ہوئی تصویر، نرم لب و لہجے سے ہم نے یہ امیدیں وابستہ کرلیں کہ وہ سابقہ صدر بش سے مختلف اور پاکستان کے یار دلدار ہوں گے لیکن وہ بش سے بھی کئی قدم آگے نکلے۔ صدر ٹرمپ نے الیکشن میں پا کستان کے خلاف بہت سخت زبا ن استعمال کی تھی۔ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں تھی لیکن جب وزیراعظم نواز شریف کی ٹیلی فون کال پر انہوں نے نواز شریف اور اہل پاکستان کو باتوں کے استرے سے مونڈا اور پاکستان کے بارے میں نیک جذبات کا اظہار کیا تو یہاں اس طرح سکھ کا سانس لیا گیاجس طرح نئی نویلی بہو ساس کے خلاف توقع اچھا ہونے پر سکھ کا سانس لیتی ہے۔ ہر امریکی صدر پا کستان کے لیے بد سے بدتر ثابت ہوتا ہے لیکن ہماری خوش گمانیاں! اللہ اکبر۔ نئی امریکی انتظا میہ ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے کئی دن تک اخبارات کی شہ سرخیاں اسی حوالے سے ہوتی ہیں۔ جو بائیڈن کی آمد کے بعد بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بائیڈن انتظا میہ میںنا مزد وزیردفاع جنرل لائیڈ آسٹن اور نا مزد وزیرخارجہ ٹونی بلنکن نے پاکستان کی اہمیت کے بارے میں کیا فرمایا پاکستانی میڈیا میں اس کی با لتفصیل رپورٹنگ ملا حظہ فرما ئیے:
سینیٹ میں انٹرویو کے دوران نامزد وزیر دفاع جنرل لائڈ آسٹن اور نامزد وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے افغان امن معاہدہ کے علاوہ علاقے میں دہشت گرد گروہوں پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی اہمیت پر زور دیا۔ جنرل لائڈ آسٹن نے جنوبی ایشیا میں حکمت عملی کے متعلق سینیٹ میںپوچھ گچھ کے دوران سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دفاعی مراسم بحال کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان ایک خود مختار ملک ہے تاہم اس کی فوج کے ساتھ مراسم استوار کر کے امریکا افغانستان میں قیام امن کے علاوہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائیوں کو بھی موثر بنا سکتا ہے۔ پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کے ذریعے امریکا اور پاکستان باہمی دلچسپی کے بعض اہم شعبوں میں تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ میں ایسی علاقائی پالیسی پر عمل کرنا چاہوں گا جس میں افغانستان کا پاکستان جیسا ہمسایہ قیام امن میں کردار ادا کرے اور امن کی راہ میں روڑے اٹکانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے‘‘۔ نامزد امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکا کی درخواست پر افغان امن عمل میں تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہ مثلاً لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خلاف بھی اقدامات کیے ہیں۔ اگرچہ یہ کام ابھی نامکمل ہے۔ انہوں نے سینیٹ کمیٹی پر واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات استور کرنا اور اعتماد کی فضا پیدا کرنا بے حد اہم ہے۔ اسی طرح علاقے میں امریکی مفادات کا تحفظ ہو سکے گا اور دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی امید کی جاسکے گی‘‘۔
اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے نامزد وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے بھی پاکستان کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’ہم افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس لیے ہمیں افغانستان میں کسی نہ کسی قسم کی فوجی موجودگی یقینی بنانا ہوگی۔ تاکہ اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکا جاسکے۔ ہمیں طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر از سر نو غور کرنا ہوگا تاکہ دیکھا جاسکے کہ کن پہلوئوں پر اتفاق کیا گیا ہے اور کس پہلو سے بہتری لائی جا سکتی ہے‘‘۔ البتہ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ قابل عمل نہیں ہو سکتا جس میں افغان خواتین ان حقوق سے محروم کردی جائیں جو بمشکل انہوں نے حاصل کیے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن اور اس علاقے سے امریکی مفادات کو لاحق خطروں کے حوالے سے صدر جو بائیڈن بھی انتخابی مہم کے دوران ایک مباحثہ میں کہہ چکے ہیں کہ ’افغانستان سے امریکا پر دہشت گرد حملوں کی روک تھام کے لیے فوجی اڈوں کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلہ میں پاکستان سے تعاون کے لیے کہا جاسکتا ہے‘‘۔
نئی امریکی انتظا میہ ہو یا سابقہ سب اپنے مفادات کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو دیکھتی ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کے امریکا کے باب میں پیمانے دوسرے ہیں۔ وہ تمام سودوزیاں سے بے نیاز ہوکر امریکا کی چا کری کرتے ہیں۔ امریکا سے وہ صرف ایک چیز کے طلبگار ہوتے ہیں، اپنے اقتدار کی ضمانت اور بس۔ اس کے لیے وہ امت مسلمہ ،پاکستان کے عوام اور پا کستان کے ہر مفاد کو قربان کرنے پرتیاررہتے ہیں۔ 2000تک امریکا بھارت کو دبائو میں لانے کے لیے کشمیر کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتا رہا۔ اس وقت تک ہمارے حکمران بھی مجا ہدین کشمیر کی مدد کرتے اور کشمیر کی آزادی کی جدو جہد کو زندہ رکھے رہے لیکن اس کے بعد جیسے ہی امریکا اور بھارت ایک دوسرے کے اتحادی بنے، امریکا نے اہل کشمیر کی طرف پیٹھ کی ہمارے حکمران بھی مجاہدین کشمیر کے دشمن اور ان کی جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے میں پیش پیش رہنے لگے۔
نائن الیون کے بعد امریکا کو افغان مسلمانوں کا خون بہانے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے پا کستان کی مدد کی ضرورت پڑی جنرل پرویز مشرف ایک فون کال پرراضی ہوگئے صرف اس شرط پر کہ انہیں پا کستان کا حکمران سمجھا جائے اور ان کے اقتدار کی ضمانت دی جائے۔ زرداری اور نوازشریف کے دور میں بھی ہماری سول اور ملٹری قیادت کا قبلہ وکعبہ امریکا تھا۔ امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ پر 26 پا کستانی فوجیوں کو شہید کردیا اور اس پر معافی ما نگنا بھی گوارا نہیں کیا، اسامہ بن لاد ن کے معاملے میں پا کستان کی سرحدوں کو مذاق بنا کررکھ دیا لیکن ہمارے محافظوں کو باہر سے آنے والے ہیلی کا پٹر نظر آئے نہ ان کے ریڈار حرکت میں آئے اور نہ نت نئے میزائل۔ گزشتہ برس بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ضم کرلیا لیکن ہمارے حکمرانوں نے سوائے اپنے عوام کو جھوٹے لارے دینے کے کچھ نہیں کیا کیونکہ بھارت کے لیے مسائل پیدا کرنا امریکا کو پسند نہیں تو ہمارے حکمران اس کی جرأت کیسے کرسکتے ہیں۔ جنرلوں کو ایکسٹنشن مل ر ہی ہے۔ تمام تر نااہلی کے باوجود عمران خان برسر اقتدار ہیں اور کیا چا ہیے۔
دوحہ مذاکرات میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ صدر ٹرمپ نے پا کستان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیے لیکن پا کستان کی امداد کی بحالی کا ہلکا سااشارہ بھی نہیں کیا اس کے بدلے وزیراعظم عمران خان سے وائٹ ہائوس میں پرتپاک ملاقات ،اقوام متحدہ میں شاندار تقریر کا موقع اور آئی ایم ایف سے با لاقساط دوتین ارب ڈالر کی امداد دلادی۔ نئی بائیڈن انتظا میہ میں خیر کا پہلو یہ پنہاں ہے کہ وہ پا کستان کی امداداور دفاعی تعاون کی بحالی کے اشارے دے رہی ہے۔ بائیڈن انتظا میہ کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے عمران حکومت کی جائے فوج کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت بھی فوج کو ہی مخاطب کررہی ہے۔ فوج کے سامنے ہی مطا لبات رکھ رہی ہے۔ عمران خان بھی اپنی حکومت کی طاقت فوج کے ایک پیج پر ہونے کو قراردیتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ ہم کیا بتائیں۔ آپ سمجھ دار ہیں۔