بھارت میں تعصب بڑھ رہا ہے

461

بھارت خود کو ایک جمہوری ملک کہتا ہے مگر حقائق بہت ہی مختلف ہیں، نریندر مودی کے مسلسل دوسری بار برسراقتدار آنے کے بعد مسلم کش اقدامات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد متنازعہ شہریت ایکٹ بھی منظور کر لیا گیا، متنازعہ شہریت قانون کیخلاف طلبہ اور مسلمانوں سمیت لاکھوں شہریوں کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا جارہا ہے۔ نئی دہلی کے شاہین باغ میں متنازعہ بل کیخلاف مظاہرے ہوئے، اب کسان سراپا احتجاج ہیں وہاں خواتین بھی سراپا احتجاج ہیں عوامی مظاہروں سے خوفزدہ مودی سرکار نے نیشنل سیکیورٹی ایکٹ نافذ کردیا ہے۔ اس وقت پورے بھارت میں بے یقینی کی فضا قائم ہے اور مسلمان و دیگر اقلیتیں سخت عدم تحفظ کا شکار نظر آ رہی ہیں بنگلور میں قانون کی مخالفت کرنے والے بنگالی مہاجرین کی جھگیاں مسمار کر دی گئی ہیں جس سے سخت سردی میں ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔ بنگلادیشی تارکین کی جھگیوں پر مشتمل پوری بستی کو انتظامیہ نے مسمار کر دیا، بی جے پی کے مقامی رکن ریاستی اسمبلی نے بستی مسمار کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی بھارت میں احتجاجی لہر کیساتھ ساتھ انتہاپسند ہندو رہنما اپنی مسلم مخالف ذہنیت کا بھی کھل کر اظہار کر رہے ہیں انتہا پسند جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) مغربی بنگال کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت پورے بھارت میں رجسٹریشن پالیسی پر عمل درآمد کرے گی جس کے بعد ایک کروڑ مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔ انہوں نے الزام عاید کیا یہ مسلمان بھارت میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ دلیپ گھوش نے الزام عاید کیا کہ جو بھارت کے متنازعہ شہریت کے بل کی مخالفت کررہے ہیں وہ بھارت کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا غیر قانونی طور پر مقیم افراد حکومت کی جانب سے دو روپے کلو چاول کی اسکیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن ہم جلد انہیں واپس بنگلا دیش بھیجیں گے۔بی جے پی رہنما نے الزام عاید کیا کہ بنگلا دیشی مسلمان مغربی بنگال میں جرائم میں بھی ملوث ہیں۔ دنیا گواہ ہے کہ 1971ء میںبھارت نے کھلی جارحیت کی اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور آج نریندر مودی اس بات کا برملا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ بھارت نے اُس وقت بنگالیوں سے بڑی ہمدردی جتائی اور انہیں اپنے دام میں پھنسا لیا۔ تاہم پاکستان سے علیحدہ ہونے کے باوجود بنگالیوں نے بھارت میں شامل ہونے کے بجائے اپنی الگ مسلم شناخت برقرار رکھی۔ گزشتہ 49برس کے دوران بھارتی حکمرانوں کے مسلم مخالف اقدامات کو دیکھتے ہوئے آج بنگالیوں پر ہندوتوا کا اصل چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کی صورت میں بھارت نواز حکومت ہونے کے باوجود وہاں کے عوام کی اکثریت بھارت کے خلاف ہے۔ ہندوئوں کی مسلمانوں سے عداوت اور تعصب پر مبنی رویہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل برطانوی ہند میں بنگال کا صوبہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دیگر تمام صوبوں سے بڑا تھا۔ یہاں کا اقتصادی اور معاشی نظام مکمل طور پر ہندوئوں کے کنٹرول میں تھا۔ 1905ء میں جس وقت لارڈ کرزن ہندوستان کے وائسرائے تھے، ان کی سفارش پر برطانوی پارلیمنٹ نے انتظامی سہولت کے پیش نظر بنگال کو دو حصوںمیں تقسیم کرنے کا منصوبہ منظور کر لیا۔ کیونکہ انگریزوں کے مطابق اتنے بڑے اور وسیع صوبے کا انتظام صحیح طریقے سے چلانا ایک گورنر کے بس کی بات نہ تھی۔ اس تقسیم کے نتیجے میں بنگال کے دو صوبے بن گئے۔ 1۔مشرقی بنگال، 2۔ مغربی بنگال۔ تقسیم بنگال سے ہندوئوں اور مسلمانوں پر مختلف اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمان اس تقسیم سے بڑے خوش تھے، کیونکہ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، جو ایک نیا صوبہ بن گیا۔ لیکن جہاں تک ہندووں کا تعلق تھا وہ اس تقسیم سے بڑے برہم اور سیخ پا ہوئے۔ اگرچہ مغربی بنگال میں ان ہی کی اکثریت تھی لیکن وہ ہر گز یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ مشرقی بنگال اور مسلم اکثریت والا صوبہ بن جائے اور اس طرح پورے بنگال پر ان کی اقتصادی اور سیاسی اجارہ داری اور بالادستی ختم ہو جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندووں نے تقسیم بنگال کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس تقسیم کی منسوخی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی، انگریزی مال کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔ قانون کی خلاف ورزیاں شروع کر دی گئیں، ٹیکسوں کی ادائیگیاں روک دی گئیں اور بالآخر تشدد پر اتر آئے یہاں تک کہ وائسرائے کو قتل کرنے کی سازشیں تیار ہونے لگیں۔ ان حالات میں انگریز سرکار نے آخر کار گھٹنے ٹیک دیے اور 1911ء میں بنگال کی تقسیم منسوخ کر دی گئی۔ اس منسوخی سے مسلمانوں کو سخت صدمہ پہنچا لیکن ان کی حالت نہایت پسماندہ تھی لہٰذا وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم بنگال نے ہندوستانی سیاست کے میدان میں نئے بیج بو دیے۔ تقسیم بنگال پر ہندوئوں کی تنگ نظری کے پیش نظر مسلمانوں کا اعتماد آل انڈیا نیشنل کانگریس سے اُٹھ گیا، یہی وجہ تھی کہ شملہ وفد کے تین مہینے بعد مسلمانوں نے ایک نہایت اہم فیصلہ یہ کیا کہ انہوں نے اپنے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے 30 دسمبر 1906ء کو بمقام ڈھاکا قائم کرلی جس کے پلیٹ فارم سے مسلمانان برصغیر نے اپنی منزل یعنی آزادی کو پا لیا۔ بی جے پی اور نریندر مودی کی مسلم کش پالیسیوں سے تنگ آ کر خودہندوئوں کی طرف سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ ترنمول کانگریس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں شہریت کا متنازعہ قانون اور شہریوں کی رجسٹریشن کا این آر سی حکمران بی جے پی کی نفرت کی سیاست کا ایجنڈا ہے۔ یہ عوام میں پھوٹ ڈال کر سیاسی فائدہ اٹھانے کا ایک حربہ ہے۔ لیکن یہ کامیاب نہیں ہو گا‘‘۔ بھارتی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوںسے وہ حلقے بھی قائداعظمؒ کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت ان کے نظریہ کی مخالفت کی تھی۔ ان کا اب ماننا ہے کہ قائداعظمؒ کے نظریات سو فیصد درست تھے اور ہمارا کانگریس کا ساتھ دنیا اورپاکستان کی مخالفت غلط فیصلہ تھا۔ بھارتی مسلمانوں میں بیداری کی یہ لہر اس بات کی غماز ہے کہ مسلمان جاگ چکے ہیں اور اب وہ اپنے حقوق کا تحفظ ہر قیمت پر ممکن بنائیں گے۔ ایسے میں بھارت میں ایک اور نئے پاکستان کا منظر نامہ صاف نظر آ رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور اس خطے میں مسلمانوں کی ایک اور ریاست معرض وجود میں آئے گی۔