تحریک عدم اعتماد یا لانگ مارچ؟۔

636

شاعر نے کہا تھا

مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات

کچھ ایسا ہی معاملہ اِس وقت اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد، پی ڈی ایم کا ہے جس میں عمران حکومت کو ہٹانے کے مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہو پارہا۔ پیپلز پارٹی ایجی ٹیشن سے بچنا چاہتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کا نتیجہ انارکی یعنی افراتفری کی صورت میں ظاہر ہوگا اور اس افراتفری میں سندھ حکومت اس کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ سندھ حکومت چلی گئی تو پھر اس کے پاس کیا رہ جائے گا۔ وہ کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈولنے لگے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اجتماعی استعفے دینے کے بھی حق میں نہیں ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن نے بہت زور مارا لیکن بات نہ بن سکی۔ اب تو یہ ایشو ہی قصہ پارینہ بن گیا ہے اور بات لانگ مارچ پر آ ٹکی ہے۔ چیئرمین بھٹو زرداری نے حکومت کو ختم کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد کی تجویز پیش کرکے لانگ مارچ کے موقف میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تحریک کے حق میں اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے لیکن یار لوگوں کی رائے ہے کہ بلاول اپنے اتحادیوں کو خاک اعتماد میں لیں گے۔ ان کی اس تجویز سے پی ڈی ایم میں اختلاف بڑھے گا اور وہ انتشار کا شکار ہوجائے گی، کیوں کہ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) لانگ مارچ کے حق میں ہیں اور وہ اسے حکومت کے خلاف آخری آپشن سمجھتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن تحریک عدم اعتماد کی تجویز پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ انہوں نے نہایت حقیقت پسندی سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ان کے بس میں نہیں اور وہ اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ مسلم لیگ (ن) بھی اس کھیل کو سمجھتی ہے اسی لیے اس نے بلاول سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ان کے پاس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے مطلوبہ ووٹ موجود ہیں تو شو کریں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ بصورت دیگر وہ اس مشقِ فضول سے باز آجائیں۔
دیکھا جائے تو ایک جمہوری نظام میں تحریک عدم اعتماد ہی حکومت کو تبدیل کرنے کا ایک پُرامن، جمہوری اور آئینی طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت جیسی بھی ہے، ہے تو جمہوریت ہی۔ پی ڈی ایم نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ملک بھر میں کتنے ہی احتجاجی جلسے کیے ہیں، ریلیاں نکالی ہیں اور اِن جلسے جلوسوں میں حکومت کو بُری طرح رگیدا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس عمل سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج اِن جلسوں کا مذاق اُڑاتی رہی لیکن پی ڈی ایم اس سے بدمزہ نہ ہوئی۔ اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تو ایسے میں بلاول کی تجویز پر عمل کرنے میں کیا حرج ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی لیکن یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ پارلیمنٹ کتنے پانی میں ہے، بلاول نے یہ تجویز الل ٹپ پیش نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ان کے والد محترم جناب آصف علی زرداری کی فکر کام کررہی ہے۔ زرداری خوب جانتے ہیں کہ یہ حکومت مقررہ مدت سے پہلے کہیں نہیں جانے کی۔ اس لیے وہ اس سے اور اس کے سرپرستوں سے تصادم کیوں مول لیں اور سندھ میں اپنی حکومت کے لیے خطرات کیوں پیدا کریں۔ تحریک عدم اعتماد بھی ایک ایسی ہی بے ضرر تجویز ہے جس پر عمل کرنے سے اپوزیشن میں رہنے کا حق بھی ادا ہوجائے گا اور مقتدرہ کی پیشانی پر بَل بھی نہیں آئے گا۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن مقتدرہ کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ حضرت مولانا تو مجوزہ لانگ مارچ کے شرکا سے اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کا رُخ کرنے کی اپیل کرچکے ہیں جہاں جی ایچ کیو ہے اور عسکری قیادت جہاں بیٹھتی ہے۔ حضرت مولانا کی اس اپیل کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی فوری پریس کانفرنس میں یہ کہہ چکے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا راولپنڈی آنا بنتا نہیں ہے۔ ان کا اختلاف حکومت سے ہے، فوج یا فوجی قیادت اس میں فریق نہیں ہے۔ فوج تو آئین کے تحت حکومتِ وقت کے احکامات کی پابند ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان کے بعد حضرت مولانا کا جوش و خروش بھی ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ انہوں نے پھر راولپنڈی جانے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ اب بات یہاں پہنچ کر اٹک گئی ہے کہ بلاول کی تجویز پر عمل ہوگا یا لانگ مارچ اسلام آباد جائے گا۔ سیانوں کی رائے ہے کہ عین ممکن ہے پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں سے مایوس ہو کر تنہا اپنی تجویز پر عمل کر بیٹھے اور اپوزیشن کی احتجاجی سیاست ایک نیا رُخ اختیار کرلے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کا راستہ پی ڈی ایم سے الگ ہوجائے گا اور لانگ مارچ کے حامیوں میں (ن) لیگ اور مولانا فضل الرحمن ہی رہ جائیں گے۔ (ن) لیگ لیڈروں کی جماعت ہے اس کے پاس کارکن بس اتنے ہی ہیں جو احتساب عدالت کے باہر پیش ہوتے ہیں۔ البتہ مولانا صاحب کے پاس مدرسے کے طالب علموں کا جم غفیر موجود ہے۔ مولانا صاحب اس سے پہلے اپنے دھرنے میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی بیوفائی کا تجربہ کرچکے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسا نہیں جاتا۔ ممکن ہے مولانا صاحب اپنی مومنانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے کوئی نیا فیصلہ کر بیٹھیں اور لانگ مارچ دھرے کا دھرا رہ جائے۔ ویسے بھی سینیٹ کے الیکشن سر پر ہیں اور مولانا سینیٹر بننا چاہتے ہیں۔