سی آئی اے ’’ولیم برنس اور ڈیوڈ کوہین‘‘ اسکندرِ اعظم

685

۔’’times magazine‘‘ نے نومبر 2001ء کی اپنی اشاعت میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’اسکندر ِ اعظم کی جنگی کامیابیوں کا محور یہ تھا کہ وہ مخالفین کے لیے بہت اچھی سفارتکاری اور پُر تشدد حملوں کی مہارت رکھتا تھا۔ وہ مخالفین میں لالچی، کمزور اور پست حوصلہ لوگوں کو اپنا دوست اور دوستی نہ کرنے والوں کی گردن اُتار کر اپنی کامیابی کو یقینی بناتا تھا‘‘۔ ٹائم میگزین نے افغانستان میں امریکا کی مسلسل بمباری کے باوجود ناکامی کے بعد یہ سبق دیا تھا کہ امریکا افغانستان میں صرف بمباری سے کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اس لیے اس کو ڈالرز اور بمباری کو ساتھ ساتھ چلاتے ہوئے کامیابی مل سکتی ہے اور امریکا کو اس سے عارضی فائدہ بھی ہوا۔
ان اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے امریکا کے صدر جوبائیڈن نے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے لیے نئے سربراہ سابق سفارتکار ولیم برنس سخت گیر اور پراکسی و مالی جنگ کے ماہر ڈیوڈ کوہین کو ان کا نائب مقرر کردیا ہے۔ سابق سفارتکار ولیم برنس اپنے 33سالہ کیریئر میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ 2009 سے کسی نہ کسی طرح امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹ سے منسلک ہیں۔ وہ کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے تھنک ٹینک کے صدر ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے وہ بھارت کے دوست لیکن بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی ہندو پرستانہ پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں۔ وہ بھارت میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر امریکا میں اُٹھنے والی ’’آواز‘‘ کے سب سے بڑے نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 2009 میں امریکا کی سیکرٹری اسٹیٹ ڈاکٹر کونڈا لیزا رائس اور پھر 2014 میں بھی ڈپٹی سیکرٹری اسٹیٹ اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں روس کے سفیر اور سابق صدر بارک اوباما کے ماتحت ریاست کے نائب سیکرٹری کی حیثیت سے دونوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک صدور کی موجودگی میں امریکا کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔
امریکا کے نائب سیکرٹری کے عہدے سے قبل ولیم برنس 1998 سے 2001 تک اردن کے سفیر رہے، 2001 سے 2005 تک مشرقی امور کے معاون سیکرٹری 2005 سے 2008 تک روس میں سفیر اور 2008 سے 2011 تک سیاسی امور کے سیکرٹری خارجہ رہے۔ وہ امریکا کے سابق سیکرٹریوں وارن کرسٹوفر اور میڈیلین البرائٹ کے لیے ماسکو میں امریکی سفارت خانے میں سیاسی امور کے معاملات بھی دیکھتے رہے ہیں۔ ولیم برنس روسی، عربی اور فرانسیسی زبانیں بولتے ہیں 1991 میں ولیم برنس کو محکمہ دفاع اور امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی جانب سے اعلیٰ شہری اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ یہی ان کی تعیناتی کی سب سے بڑ ی وجہ ہے۔
امریکی سی آئی اے کا چیف صدر ِ امریکا کے بعد اور کبھی اس سے بہت زیادہ اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔ اور اس اختیار کی وجہ سے دنیا میں اپنے آپ کو امریکی صدر اور امریکیوں سے بالا تر سمجھتا ہے۔ 9/11 کے بعد پوری دنیا میں سی آئی اے نے خوف کی فضاء پیدا کر دی ہے اور اب ایک سفارتکار کو سی آئی اے کا سربراہ اور اس کا نائب ڈیوڈ کوہین سے اسکندرِ اعظم کی پالیسی پر چلنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کا صاف مطلب ہے امریکا ایک جانب بہترین اور نرم لہجے میں ولیم برنس کو استعمال کر ے گا اور دوسری جانب ڈیوڈ کوہین کی مدد سے دھمکیوں اور مالی و عسکری خوف پھیلا کر ’’سر سہلاؤ دماغ کھاؤ‘‘ کی پالیسی جاری رہے گی۔ ولیم برنس کو یہ بات تو معلوم ہو گی کہ امریکا انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ہے لیکن امریکا کے لیے ’انسانی حقوق خاصہ لچکدار نظریہ ہے اس کا دارو مدار اس پر ہے کہ کسی خاص دن آپ کتنے منافق ہونے کے لیے تیار ہیں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے ’غیر معمولی حراست‘ کا نظریہ ناقابل قبول ہے لیکن سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا کے سلامتی کے اداروں کو دہشت گردی، جہادی مسلمانوں کے حملوں، اور ان کی فنڈنگ کو ہر انداز سے بند کرنے کی ضرورت ہوئی تو انہوں ڈیوڈ کوہین کو سی آئی اے کے مالی امور کا نگراں بنایا جس کی مدد سے ایف اے ٹی ایف اور ان جیسے اداروں کی مدد سے مسلم ممالک کے خزانوں کو عریاں کرنے کی سازش تیار ہوئی، امریکی سی آئی اے نے ڈیوڈ کوہین کو دور میں بتایا کہ امریکا کو سائبر حملوں اور جوہری پھیلاؤ جیسے ابھرتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں صرف مسلمانوں پر حملہ کرنا اور ان کے مالی امور کو تباہ کرنا ضروری ہے۔
سابق صدر روزویلٹ کا کہنا تھا کہ ’’عظیم آزاد لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ برائی کی قوتوں کے سامنے بے بس نہ ہوں‘‘ اور جرمنی کے ہٹلر کہا کرتے تھے کہ ’’دنیا میں ہر بیماری کا جراثیم ہوتا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی بیماری برائی کے جراثیم یہودی ہیں‘‘ اور امریکا اسرائیل کا دامے درمے سخنے ساتھ دے رہا ہے۔ امریکی سی آئی اے ہر سطح پر اسرائیل کی مدد گار اور اسرائیل کے خلاف کام کر نے والے امریکی سی آئی اے کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور ایشیا میں امریکا کے لیے بھارت اس وقت بہت اچھا دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے لیکن چین کی بڑھتی ہوئی بالا دستی امریکا کو پسند نہیں ہے اور چند دن قبل ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن ان کی نائب صدر کملا ہیرس اور سی آئی اے چیف ولیم برنس تینوں ہی اسرائیل اور بھارت کی پالیسوں کے سخت مخالف ہیں لیکن اقتدار کی اپنی ہی پالیسی ہوتی اور اس کو چلانے والے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اپنے حامی اور مخالف ہوتے اور اقتدار میں رہنے کے لیے صرف عالمی اسٹیبلشمنٹ کا سکہ چلتا ہے۔
سی آئی اے نے امریکا کی خارجہ پالیسی کے مشکل ترین مسائل حل کرنے میں مدد دی ہے جن میں ابھرتے ہوئے چین، پیوٹن کے روس اور اسد کے شام سے لے وینزویلا تک شامل ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ تعلقات کی ترویج کے لیے آگاہی پر مبنی دوطرفہ خارجہ پالیسی کے لیے بنیاد ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ امریکا اپنی تمام تر قوت کے باوجود دنیا میں انسانوں کا قتل عام اور ملکوں پر قبضہ کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس کو اپنی اس کوشش میں ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں ملتا۔