سارے ہانڈی چاٹ رہے ہیں

596

فانی کے ایک شعر سے آغاز کرتے ہیں: ۔

فانی بس اب خدا کے لیے ذکر دل نہ چھیڑ
جانے بھی دے بلا سے رہا یا نہیں رہا

اور استاد ذوق:۔

تو ہی جب پہلو سے اپنے دلربا جاتا رہا
دل کا پھر کہنا تھا کیا، جاتا رہا جاتا رہا

صاحبو! وہ دل جو اعلیٰ قیادت سے پاک دامنی کا طلب گار ہے عرصہ ہوا دہائیاں دیتا خاموش ہوگیا پر اب بھی کبھی کبھی ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے اس کیفیت کو کیا خوب بیان کیا ہے: ۔

چمک ہے درد ہے کوندن پڑی ہے ہوک اٹھتی ہے
مرے پہلو میں کیوں یارو یہ دل ہے یا کہ پھوڑا ہے

بازارِ حسن میں بھی پاک دامنی کے نمونے ملنا ممکن ہیں مگر اس نظام میں ایسا ہو، ممکن نہیں۔ اس نظام میں کرپشن کا انسداد تو کجا کرپشن کی یافت ہی میں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ جو ادارے چوری کی رقوم کی وصولی کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں وہ خود گھر پھونک تماشا دیکھتے ہیں۔ نیب اور براڈ شیٹ کیس اس کی مثال ہے جہاں سارے کتے مل کر پاکستان کی ہانڈی چاٹ رہے ہیں۔ براڈ شیٹ کیس پر بہت سے تبصرے سامنے آچکے ہیں لیکن پھر بھی کچھ تفصیلات دل جلانے کے لیے:
1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے ملک فتح کیا تو جرنیلوں کی روایت کے عین مطابق ہر چوری میں انہیں سیاست دان ملوث نظر آئے۔ جن کا قلع قمع کرنے کے لیے انہوں نے نیب تشکیل دی اور جرنیلوں کو سیاست دانوں کے پکڑنے کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ بیرون ملک سیاست دانوں کی کرپشن کے پہاڑوں کی کھوج کے لیے جنرل امجد نے امریکا میں ایک شخص جیری جیمز سے رابطہ کیا۔ جیری جیمز نے اپنی ایک قانونی فرم کا جنرل صاحب سے تعارف کرایا جس کا ایک رکن فراڈ کیس میں پہلے ہی تین برس کی پابندی کا سامنا کررہا تھا۔ یہ بات جنرل امجد کی نظر میں نہ آجائے جیری جیمز نے آئیل آف مین میں ایک نئی آف شور کمپنی بنائی جس کا نام تھا براڈ شیٹ۔ جس نے جنرل امجد اور نیب کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ طے یہ پایا کہ نیب کرپٹ لوگوں کی فہرست مہیاکرے گا۔ براڈ شیٹ ان کے اثاثے ری کور کرائے گا جس کا بیس فی صد اسے ادا کیا جائے گا۔ 2003 تک جیری جیمز نے کچھ اثاثوں کی تلاش میں حکومت پاکستان کی مدد کی جن میں آبدوزوں کی خریداری میں کک بیکس میں ملوث ایڈ مرل منصورالحق اور اس کے دو فرنٹ مینوں جمیل انصار اور عامر لودھی کا کیس بھی شامل تھا۔ مخدوم فیصل صالح حیات اور آفتاب شیر پائو سے لوٹی گئی رقوم کی وصولی بھی براڈشیٹ کی مرہون منت تھی۔ ان افراد سے پلی بارگین کے بعد نیب نے براڈ شیٹ کو بھی بیس فی صد کی ادائیگی کی تھی۔ نواز شریف ایک معاہدے کے نتیجے میں اپنے کچھ اثاثے دے کر جب سعودی عرب جلا وطن ہوگئے تو نیب نے براڈ شیٹ سے نواز شریف اور کچھ اور لوگوں کے خلاف تحقیقات روکنے کا کہا۔ لسٹ مختصر ہونے اور کمیشن میں کمی کے خدشات کی وجہ سے نیب اور براڈ شیٹ کے معاملات الجھنے لگے۔ نیب نے 2003 میں قواعد کے برخلاف ازخود معاہدہ ختم کردیا۔ 2004 میں جیری جیمز نے مصالحتی عدالت سے رجوع کیا۔ نیب کے ایک نمائندے نے اسے پانچ لاکھ پائونڈز کی آفر کی جسے اس نے مسترد کردیا۔ اس وقت تک جیری جیمز کی کمپنی خاتمے کے قریب پہنچ چکی تھی جسے اس نے آئل آف مین میں لیکوی ڈیٹرز کے سپرد کردیا تھا اور اپنے آپ کو اس سے لاتعلق کرلیا تھا۔ جب نیب سے اسے کچھ رقم کا آسرا ہوا تو اس نے امریکا میں براڈ شیٹ کے نام سے ایک اور کمپنی لانچ کردی اور نیب سے کہا اب معاملات اس کمپنی کے تحت ہوں گے۔ کمال سادگی یا کچھ اور نیب نے جیری جیمز کے اس موقف کو تسلیم کیا اور ڈیڑھ ملین ڈالر دے کر اپنے طور پر جان چھڑائی۔ جیری جیمز کے ایک پارٹنر ایرانی نژاد موسوی کو اس ڈیل کی خبر ہوئی تو اس نے حکومت پاکستان سے رجوع کیا اور کہا کہ جیری جیمز کو اس کا اختیار ہی نہیں تھا، وہ تو کوئی کمپنی ہی نہیں تھی۔ اصل براڈ شیٹ تو یہ پچھلی والی ہے جسے آپ کو رقم دینی تھی۔ اس دوران جیری جیمز خودکشی کرچکا تھا۔ موسوی نے نیب پر مقدمہ کردیا۔ 2016 میں انٹر نیشنل ٹریبونل جج نے اس کے موقف کو تسلیم کیا۔ دسمبر 2018 کو لندن کی ایک عدالت نے پاکستان کے خلاف 21ملین ڈالر جرمانے کا فیصلہ دیا۔ لندن ہائی کورٹ کے حکم پر دسمبر 2020 میں پاکستان سفارت خانے کے بینک اکائونٹ سے کچھ اور مدیں ملاکر لگ بھگ 29ملین ڈالر کی رقم براڈ شیٹ کو اداکردی گئی۔ تقریباً 4ارب 50 کروڑ روپے۔
سوال یہ ہے کہ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے بلا کسی بین الاقوامی ٹینڈر اور اشتہار کے کنٹریکٹ جیری جیمز کی اس کمپنی کو کیسے دے دیا گیا جو کچھ ہی دن پہلے بنائی گئی تھی۔ معاہدہ کرنے سے پہلے تجربہ کار فرموں سے رجوع کیوں نہ کیا گیا۔ دوسرا سوال یہ کہ معاہدے میں مدت کا تعین کیوں نہیں کیا گیا جس کو بنیاد بناکر نیب کے معاہدہ ختم کرتے ہی براڈ شیٹ نے نیب کو گردن سے پکڑ لیا۔ تیسرا اور انتہائی اہم سوال یہ کہ معاہدے میں اس بات کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی کہ براڈ شیٹ کو بیس فی صد معاوضہ صرف بیرون ملک اثاثوں کی ریکوری پر دیا جائے گا۔ جو رقوم نیب پاکستان میں ازخود ریکور کرے گی براڈ شیٹ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ براڈ شیٹ نے اس قانونی سقم کا فائدہ یوں اٹھایا کہ جب میاں نواز شریف کے خلاف 2018 میں جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ میاں صاحب نے 800ملین ڈالر کے کرپٹ اثاثے بنائے ہیں تو براڈ شیٹ نے دعویٰ کردیا کہ اس رقم میں سے بیس فی صد ہمیں ادا کیا جائے۔ کون جواب دے گا کہ یہ بھیانک غلطی کیوں کی گئی جس کا براڈ شیٹ نے فائدہ اٹھایا۔ جب کہ ان اثاثوں کی ساخت میں کرپشن ثابت ہوئی اور نہ رقم ریکور ہوئی۔ پہلے غلط پارٹی کو ڈیڑھ ملین دے دیے گئے اور اب لا پروائی کی بنا پر غلط شقوں کی وجہ سے اربوں روپے لٹادیے گئے۔
عمران خان کی حکومت کا اس میں کردار یہ ہے کہ آخر کیوں اس نے جرمانہ ہونے سے پہلے ہی بینک میں رقم ڈپازٹ کرائے۔ یوں جیسے ہی نوٹس آیا براڈ شیٹ نے رقم اکائونٹ سے نکال لی۔ براڈ شیٹ کو کیسے پتا چلا کہ فارن آفس کے اکائونٹ میں اتنی رقم ڈپازٹ کی گئی ہے جب کہ فارن آفس کا کہنا ہے کہ ہمیں پتا ہی نہیں اکائونٹ میں یہ رقم کہاں سے آئی ہمارے پاس تو اتنے پیسے تھے ہی نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ براڈ شیٹ کو پہلی ادائیگی میں چیک پر فارن آفس کے دستخط موجود تھے۔ اس مرتبہ فارن آفس کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے علم میں لائے بغیر رقم ادا کی گئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ لندن ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے سے دومہینے پہلے اقتصادی رابطہ کمیٹی ECC نے 4نومبر 2020 کو براڈ شیٹ کو دینے کے لیے 433ملین روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی سفارشات کابینہ کو بھیجی تھی جو کابینہ نے منظور کرلی۔ اس عجلت کا راز کیا تھا۔ اس میں کس کس کا مفاد اور کمیشن تھا۔ براڈ شیٹ کیس میں جنرل مشرف سے لے کر عمران خان حکومت تک سب پاکستان کی ہانڈی کو بغیر کسی شرم وحیا کے چاٹ رہے ہیں۔ دیکھیں یہ ہانڈی کب تک سلامت رہتی ہے۔