ڈاکوؤں اور نیب کا خوف

342

کراچی میں بھرے بازار میں تاجر کو قتل کرکے 15 لاکھ روپے لوٹ لیے گئے۔ تاجروں نے واقعے پر احتجاج کیا اور اس سے زیادہ پاکستانی عوام کر بھی کیا سکتے ہیں لیکن یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہ تو بڑا واقعہ ہے اس لیے رپورٹ ہو گیا ورنہ اس طرح کی چھوٹی بڑی وارداتیں ہر روز کئی کئی ہوتی ہیں۔ بڑے شہروں میں ایسے واقعات ہو بھی جاتے ہیں لیکن دوسری جانب اس کے برخلاف حکومتی سطح پر دعوے بڑے ہی غلط کیے جاتے ہیں ایسے وقت میں جب سیکورٹی ہائی الرٹ ہے شہر میں پولیس و رینجرز کے ناکے ہیں۔ پاک جنوبی افریقا کرکٹ میچ ہو رہا ہے۔ سڑکیں بند ہیں اور ڈاکو آزاد ہیں۔ تو پھر ساری سیکورٹی کس کے لیے ہے۔ کیا عوام کے راستے بند کرنا سیکورٹی کہلاتا ہے۔ مزید یہ کہ نیب کے سربراہ جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ کوئی ایک تاجر بھی نیب کی وجہ سے ملک چھوڑ کر گیا ہو تو میں گھر چلا جائوں گا۔ جاوید اقبال صاحب کو تو گھر چلے ہی جانا چاہیے۔ نیب نے خوف کا جو ماحول بنا رکھا ہے وہ ڈاکو راج سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ جو لوگ سیاسی اسباب کی بنا پر اس کی لپیٹ میں ہیں وہ تو اپنے معاملات سے نمٹ لیں گے لیکن عام تاجر اور صنعتکار یا افسران تو خودکشی یا ملک سے فرار ہی کا راستہ اختیار کرے گا۔ نیب نے تو چوری کرنے والوں کے لیے پلی بارگین کا راستہ نکالا ہوا ہے۔