بائیڈن دور میں افغان امن عمل آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا

419

واشنگٹن (تجزیہ :مسعود ابدالی)نئی امریکی انتظامیہ سے وابستہ توقعات و اندیشے اور ترجیحات کے حوالے سے ایک بات پر تمام تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ جوبائیڈن کا دور اپنے پیشرو سے بالکل مختلف ہوگا۔ صدر ٹرمپ ایک غیرروائتی صدر تھے جنہیں عملی سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ 2016ء میں نہوں نے اپنی زندگی کا پہلا انتخاب لڑا اور صدر منتخب ہوگئے۔ موصوف خود کو نہ صرف عقل کل سمجھتے تھے بلکہ اسکا اظہار انہوں نے 20 جنوری 2017 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یہ کہہ کر کردیاکیا کہ انکی صدارت کا اولین ہدف واشنگٹن کے دلدل کی تحلیل ہے۔ دلدل سے انکی مراد افسرشاہی کا بنیادی ڈھانچہ تھا جسکا ذکر وہ بار بار کرتے رہے۔ اسکے مقابلے میں جو بائیڈن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور امریکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن روایتی سیاستدانوں کی طرح بین الاقوامی امور پر فیصلہ کرتے وقت امریکا کے پالیسی ساز اداروں یعنی کانگریس کی کمیٹیوں اور مراکز دانش کی سفارشات پرعمل کرینگے۔ اگر فیصلہ سازی کے باب میں یہ تجزیہ درست ہے تو اسکا مطلب ہوا کہ افغانستان کے متعلق جو بائیڈن کی حکمت عملی پر نامزد وزیر خارجہ انتھونی بلینکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون، سی آئی اے کے نامزد ڈائریکٹر ولیم برنس اور وزیر دفاع جنرل (ر)لائیڈ آسٹن اثر انداز ہوں اور یہ چاروں حضرات طالبان کے بارے میں منفی رویہ رکھتے ہیں۔ جنرل آسٹن 2003 میں ہلکے توپخانے پر مشتمل اپنے پہاڑی ڈویژن کو لے کر اس دعوے کے ساتھ افغانستان گئے تھے کہ ہمارے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور چٹانوں کر ریزہ ریزہ کردینے والی توپوں کے گولے پہاڑوں میں قلعہ بند ملاؤں کے پرخچے اڑادینگے۔ اس وحشیانہ کاروائی کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہری مارے گئے لیکن خون کی یہ ہولی طالبان کو بہت زیادہ نقصان نہ پہنچاسکی ۔ امریکا کے تقریباً سارے جرنیل افغانستان میں طالبان سے پنجہ آزمائی کرچکے ہیں اور بلااستثنا سب ہی کو کا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ انتھونی بلینکن اوباما حکومت میں نائب وزیر خارجہ، نائب مشیر سلامتی اور نائب صدر جوبائیڈن کے مشیر قومی سلامتی رہ چکے ہیں۔ انھیں اوباما کی افغان پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان اور شمالی وزیرستان میں وحشیانہ ڈرون حملے انھیں کی تجویز تھی۔ مئی 2011 میں ایبٹ آپریشن المعروف ‘اسامہ۔اوباماانتخابی ڈرامے کے مبینہ مصنف بھی موصوف ہی تھے۔ انکی معاونت وزارت خارجہ و قومی سلامتی کے اعلیٰ افسر اور معروف سفارتکار ولیم برنس کررہے تھے جنھیں صدر بائیڈن نے سی آئی کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ ولیم برنس اور انتونی بلینکن دونوں کئی برسوں سے جو بائیڈن کے بہت قریب ہیں اور صدراوباما کے دور میں انھیں خاصہ عروج ملا۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے صدر اوبامااس احساس کمتری میں مبتلا تھے کہ ملک کاسواداعظم انھیں اصلی اور مخلص امریکی نہیں سمجھتا۔مسلمان باپ اور درمیانی نام حسین کی وجہ سے قدامت پسند انھیں مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے تھے چنانچہ صدراوباما نے افغانستان، عراق اور صومالیہ میں خونریز کاروائی کرکے خود کو دبنگ امریکی صدر ثابت کیا۔ اس کار خیر میں بلیکنن اور برنس صاحبان نے صدر اوباما کو بھرپور مدد فراہم کی۔صدر بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد اخباری نمائندوں سے اپنی پہلی ملاقات میں وہائٹ ہاوس کی ترجمان محترمہ جین پساکی نے نئی افغان پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا قطر امن معاہدے پر نظر ثانی کرکے اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ افغان طالبان ملک میں تشدد میں کمی اور دہشت گرد عناصر سے اپنے تعلقات ختم کرنے سمیت اس معاہدے کے تحت کئے گئے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔