سرمایہ دارا نہ جمہوریت! چہرہ روشن اندرون تاریک تر

419

نئے سال کے ٹھیک پانچ دن بعد 6؍ جنوری 2021ء کو اُس وقت امریکی کانگریس کی عمارت ’’کیپٹل ہل‘‘ پر سابق صدرِ امریکا ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں نے دھاوا بول دیا، جب وہاں 2020ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج کی توثیق و تصدیق کے لیے دونوں ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا جہاں۔ یہ ایک رسمی کارروائی ہی ہوتی ہے لیکن قانون کے تحت اگر ایک سینیٹر اور ایوان نمائندگان کا ایک رکن تحریری اعتراض جمع کرا دے تو پھر مشترکہ کارروائی معطل کر کے دونوں ایوان اس اعتراض پر بحث کر کے رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کر دیتے ہیں۔ ان ہی انتخابی وو ٹوں کی تصدیق کے دوران ارکان کانگریس پر دبائو ڈالنے کے لیے سابق صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو واشنگٹن طلب کیا۔ کانگریس کے باہر ایک بڑے جلسے سے اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کو ملک پر سوشلسٹوں کے قبضے کا نقطہ آغاز قرار دیا۔ اپنی تقریر میں لوگوں کو مزید جوش دلاتے ہوئے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم کانگریس کی طرف مارچ کریں گے تاکہ وہ عوامی جذبات سے آگاہ ہو جائے، مزید کہا کہ میں اس میں آپ کے شانہ بشانہ ہوں تاہم جلسے کے بعد امریکی سابق صدر وائٹ ہائوس واپس چلے گئے۔
جلسہ ختم ہوتے ہی 30 ؍ہزار سے زائد کا مجمع USA،USA کے فلک شگاف نعرے لگاتا ہوا کانگریس کی عمارت پر چڑھ دوڑا۔ پولیس کو یہ مجمع اپنے پیچھے دھکیلتے ہوئے ہجوم کی صورت میں عمارت کے اندر داخل ہو گیا۔ اس وقت ایوان میں ماحول کشیدہ تھا، انتخابات کے حوالے سے زور دار بحث چل رہی تھی۔ اسی دوران سیکورٹی اہلکاروں نے سب سے پہلے ارکان کانگریس کو حفاظتی حصار میں لیتے ہوئے انہیں تہہ خانے میں پہنچا دیا۔ جب کہ مظاہرین نے اندر آتے ہی توڑ پھوڑ شروع کر دی، اس دوران پولیس فائرنگ میں دو خواتین سمیت چار افراد مارے گئے۔ حالات کو قابو میں نہ دیکھتے ہوئے نیم فوجی دستے طلب کیے گئے اور شہر میں 24؍گھنٹے کے کرفیو کا نفاذ بھی عمل میں لایا گیا۔ یہ واقعہ امریکی تاریخ کا بدترین واقعہ مانا جا رہا ہے۔ دنیا کو امن اور جمہوریت کا درس دینے والا آج خود اپنی جمہوریت کو بچانے کے لیے کشمکش میں مبتلا ہوگیا۔ اس واقعے سے امریکا کے فسطائی چہرے سے جمہوریت کا نقاب ساری دنیا نے اُترتا ہوا دیکھ لیا۔ یہ ان کی اصل حقیقت ہے۔ ان گوروں نے ہر وقت
سرمایہ دارانہ نظام کے پنچوں کو مضبوط کیا اور آج خود ان ہی پنجوں کی زد میں حقیقی جمہوریت کی آغوش میں پناہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ آج تک ان گوروں نے اسی جمہوریت اور امن کے نام پر ساری دنیا میں تباہی مچا دی، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اپنی اس فسطائی ذہنیت کو بچانے کے لیے انہوں نے دنیا کی بربادی کے لیے جمہوریت ہی کا سہارا لیا۔ تاہم اس شرمناک واقعے میں ان کے سرمایہ دارانہ نظام کی ناقص عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ بھلے ہی کسی کو یہ واقعہ امریکی تاریخ کا شرمناک واقعہ نہ لگے لیکن دنیا میں حساس ذہن والے لوگ نہ صرف اسے مغرب کی سرمایہ دارانہ جمہوریت کا جنازہ مان رہے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ جمہوریت کا پُر فریب سبق پڑھانے والے گورے اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر کے دنیا میں گُنڈے بنے بیٹھے ہیں، اور یہ کہتے تھکتے نہیں کہ دنیا میں اگر کوئی نظریہ و نظام نجات دہندہ ہے تو وہ یہی جمہوریت ہے۔ لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ان گورے بدمعاشوں نے حقیقی جمہوریت کو کبھی دنیا میں پھلنے پھولنے ہی نہیں دیا جس کی درجنوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جہاں ان کے مفادات کا تحفظ ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت میں ہو وہ وہاں اسی کی پشت پناہی کرتے ہیں اور جہاں فسطائیت اور چنگیزیت ان کے ملک و قوم کے لیے نفع بخش ہو وہاں وہ اُسی کی پیٹھ تھپ تھپاتے نظر آتے ہیں۔ اس کی واضح مثال مصر کی ہے کہ کیسے جمہوریت کے نام نہاد علم برداروںنے مرحوم محمد مرسی کی قیادت میں حقیقی جمہوریت کا 2011ء میں خون کرکے وہاں اپنے ایک
ایجنٹ جنرل سیسی کو اقتدار سونپ دیا بلکہ اس ناجائز طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے دوران ہزاروں لوگوں کا خون ناحق مصر کی گلیوں اور کوچوں میں بہایا گیا۔ اگر یہ جمہوریت کی حقیقی دعوے داری کرتا ہے تو ان کو چاہیے تھا کہ محمد مرسی کی حمایت کرتے، وہاں کی عوامی حکومت کو کام کرنے دیتے لیکن افسوس ان جھوٹے جمہوریت کے علم برداروں نے اپنے حقیر مفادات کی خاطر حقیقی جمہوری اور انسانی اقدار کا خون کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ یہ جمہوریت کے جھوٹے دعوے دار اگر حقیقی معنوں میں جمہوریت چاہتے تو ان کو چاہیے تھا عرب ممالک میں ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہی نظام کی حمایت ترک کر دیتے بلکہ وہاں ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرتے تاکہ وہاں بھی حقیقی جمہوریت پنپتی، لیکن نہیں، ایسا کہاں ہو سکتا ہے، عرب ممالک کے بادشاہ ان کے مفادات کے عین مطابق کام جو انجام دے رہے ہیں۔ غرض یہ فسطائی ذہنیت کبھی بھی حقیقی جمہوریت کو دنیا میں پنپنے نہیں دے گی بلکہ اگر کسی جگہ حقیقی جمہوریت اپنا سر اُٹھانے کی کوشش کرے گی بھی تو یہ اُس کو کچلنے میں اپنا ہر دائو کھیلنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔ انہوں نے تو عراق اور افغانستان پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر لاکھوں بے گناہوں کا یہ کہتے ہوئے قتل عام کیا کہ وہاں جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں۔ افغانستان اور عراق تو اسی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بحالی کے نام پر آج کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اور آج یہی گورے ناکامی و نامرادی کے عالم میں ان ممالک کو برباد کر کے اب دیگر اسلامی ممالک کی بربادی کا پروگرام بنانے میں جُٹ چُکے ہیں۔ لیکن تایخ گواہ ہے ان کی اس جمہوریت نے دنیا میں کسی جگہ امن قائم نہیں کیا بلکہ کشت و خون ہی انجام دیا۔
برصغیر کے ایک مفکر سید مودودی ؒ1942میں تقسیم ملک سے پہلے سیالکوٹ میں ان کے اس انسانیت کُش نظام کے متعلق فرمایا تھا کہ: ’’ایک وقت آئے گا کہ، جب ماسکو میں کمیونزم خود اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت خود واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ بر اندام ہو گی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پا سکے گا اور آج کا یہ دور تاریخ میں صرف ایک داستان ِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی جہاں کُشا اور عالمگیر طاقت کے نام لیوا، کبھی اتنے بے وقوف ہو گئے تھے، کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور اپنے سامنے لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ کر کانپ رہے تھے‘‘۔
ستر سال سے زائد پہلے کی بات آج حرف بہ حرف ثابت ہو رہی ہے اور آج واقعتاً یہ سارے نظریات اور نظام دنیا میں در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔ گزشتہ سال ہی میں اسی جمہوریت کے چمپئن ملک میں ایک سیاہ فام کو ایک پولیس اہلکار نے بڑی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اس لیے اُتارا تھا۔ جس کے بعد امریکا میں ہفتوں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور دنیا میں جمہوریت کے علمبرداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ غرض اس سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بڑی ہی بے دردی سے انسانیت اور بے گناہوں کا خون ضائع ہو رہا ہے، جس کے سبب آئے روز اس طرح کے واقعات دنیا کو حیرت میں ڈال رہے ہیں۔ امریکا میں حالیہ واقعہ کے متعلق جموں کشمیر کے ماہر قانون شیخ شوکت حُسین کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا میں جمہوریت کی ہمیشہ سے وہی حقیقت ہے جس کی جانب حکیم الامت نے ’’چہرہ روشن اندروں تاریک تر‘‘ کے الفاظ میں اشارہ کیا ہے، اسی وجہ سے آج تک وہاں کوئی غیر کتھولک خاتوں یا اوباما کے سوا غیر سفید فام کرسی صدارت پر نہ بیٹھ سکا۔ رکھ رکھائو کے لیے پھر بھی کچھ اقدار، کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد دیواستبداد بے لگام ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے مسلم ممالک میں رقصاں ہوا اوراب خود امریکا میں رقصاں ہے۔ ٹرمپ کا ہنگامہ اسی عمل کی کڑی ہے۔ برطانیہ سے مل کر سفید فام امریکیوں کی کوشش کہ وہ پھر سے ایک ایک سفید فام نو آبادیاتی نظام دنیا پر مسلط کریں۔ امریکا میں اس کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے لیکن اسرائیل اور ہندوستان کی فسطائی حکومتیں معاون یا شراکت دار بننے کی فراق میں ہیں‘‘۔
غرض دنیا میں سرمایہ دارنہ جمہوریت اپنی پوری طاقت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہونے کی سوچ رہی ہے جس کی مثال امریکا اور برصغیر میں بھارت میں مل رہی ہے۔ بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا تاج پہنا ہوا ہے، اس کے باوجود یہاں بھی جمہوریت کی آڑ میں فسطائیت اپنا رنگ مختلف شکلوں میں دکھا رہی ہے۔ کبھی NRC اور CAA کے ذریعے ملک کی اقلیت کو ستانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو کبھی کسانوں کو اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑ رہے ہیں، کبھی لو جہاد اور بیف کے نام پر مسلمانوں کو سر عام ہجومی تشدد کی نذر ہونا پڑتا ہے تو کبھی اسی جمہوریت کو بچانے کی خاطر آزادی ٔ اظہار اور جمہوری اقدار کی دھجیاں بکھیر کے رکھی جارہی رہیں۔
اس سارے منظر نامے کو اصل طور دیکھتے ہوئے دنیا کے ذی حس افراد کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کرے، عوام الناس کو حقیقی جمہوریت کے فوائد اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے فاسد اثرات سے آگاہی دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عن قریب دنیا میں جمہوریت کے ڈھونگ رچانے والے امن اور سلامتی کا نقاب ہٹا کے دنیا کو جہنم زار بنا دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑیںگے۔
چہرہ بے نقاب ہو جانے کے بعد اسی پالش زدہ چہرے کی نقالی انسان کو خسارے میں ڈال دینے کے لیے کافی ہے تاہم اگر واقعتا اس تازہ صورتحال پر غور وفکر کا پیمانہ ہاتھ میں لے کر کام کیا جائے تو دنیا سے اس بے نقاب چہرے کی گند دور ہو سکتی ہے، وگر نہ سیاہ چہرے پر سفید رنگ کی پالش قوموں کی تباہی کا سامان بن جانے کا خطرہ ہے۔