کشمیر کی آواز سنو

501

آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات تقریباً سر پر آچکے ہیں، یہ پانچ اگست کے اقدام کے بعد ریاست میں یہ پہلے انتخابات ہوں گے، اس لحاظ سے ان کی اہمیت گزشتہ انتخابات سے بہت مختلف ہوگی، کشمیر کا مقدمہ بہت پرانا ہے، ریاست کے عوام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کے منتظر ہیں، دو ہفتوں کے بعد پانچ فروری بھی آنے والا ہے یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ 5 فروری 1990ء سے قاضی حسین احمد کی اپیل پر شروع ہوا جسے حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی کا حصہ بنایا چنانچہ اب ہر سال یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام کو بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ کشمیری عوام غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے۔ اس تناظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل و استحکام کی جدوجہد ہے جس کا دامے، درمے، قدمے، سخنے ہی نہیں عملی ساتھ دینا بھی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمے داری ہے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا۔ 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے شہ رگ پاکستان کا قبضہ چھڑانے کے لیے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیا تاہم جنرل گریسی نے اس جواز کے تحت قائد کے حکم کی تعمیل نہ کی کہ وہ برطانوی افواج کے سربراہ کے تابع ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر کشمیر کی جانب پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ کشمیر کا تنازع بھارت اور برطانیہ کی ملی بھگت سے پیدا ہوا جو درحقیقت پاکستان کو شروع دن ہی سے کمزور کرکے اس کے آزاد وجود کو ختم کرنے کی سازش تھی۔ بھارت اسی سازش کے تحت کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے کر گیا مگر جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ بھارتی جبر کے انہی ہتھکنڈوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو مہمیز دی اور آزادی کے لیے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔ وہ اپنی آزادی کے لیے جو بھی ہو سکتا ہے، کر رہے ہیں اور جانوں تک کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ مودی سرکار نے اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے تحت مکاری کے ساتھ بھارتی لوک سبھا اور راجیا سبھا سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کی شقیں 370 اور 35الف حذف کرائیں اور پھر کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے پوری مقبوضہ وادی کو کرفیو کے حوالے کیا جس کے باعث کشمیری عوام گزشتہ چھ ماہ سے گھروں میں محصور ہیں اور باہر کی دنیا سے مکمل کٹ کر کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں جبکہ بھارتی فوج نے احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنیوالے کشمیری عوام کے قتل عام کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مودی سرکار نے کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف بھی جنگ کا محاذ کھول رکھا ہے جس پر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی فکر لاحق ہوئی ہے چنانچہ آج دیرینہ حل طلب مسئلہ کشمیر اقوام عالم میں فلیش پوائنٹ بن چکا ہے جس کے حل کے لیے آج عالمی قیادتوں اور اقوام متحدہ سمیت نمائندہ عالمی اداروں کی عملیت پسندی کی زیادہ ضرورت ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر ہی نہیں پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی نظربد جمائے بیٹھا ہے اور بھارتی سول اور عسکری قیادتیں پاکستان کو آٹھ سے دس دن کے اندر ختم کرنے کی گیدڑ بھبکیاں لگاتی بھی نظر آتی ہیں۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کی روسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی تھی اور دفعہ 35-A کی روشنی میں مہاراجا کے اسٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا جس کی رو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے، نہ وہ جائداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر بن سکتے ہیں مگر مودی سرکار نے کشمیر کے اس تشخص کو ختم کرنے کے لیے بھارتی آئین کی متذکرہ شقوں کو ختم کراکے نئی ترامیم کے تحت ہندو پنڈتوں کو مقبوضہ وادی میں متروکہ وقف کی املاک خریدنے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کا حق دے دیا جس کا اصل مقصد مقبوضہ وادی کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ہے۔ چنانچہ مودی سرکار کی اس گھنائونی سازش کو ہر صورت ناکام بنانے کی ہمیں ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے یہ حقیقت ہے کہ کشمیر پر مستقل تسلط جمانے کی خاطر ہی ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ جماعت بی جے پی نے پاکستان دشمنی کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرنو تعین کیا چنانچہ نریندر مودی کے اقتدار کا کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوجوں نے بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری نہ کی ہو۔ بالخصوص مودی کی دوسری ٹرم کے آغاز ہی میں مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر نہتے کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں کا قتل عام شروع کردیا گیا اور اسی طرح کنٹرول لائن پر بھی بھارتی فوجوں نے ننگی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس پر پاک فوج کی جانب سے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کی گنیں خاموش کرائی جاتی ہیں اور اسے مسکت جواب دیا جاتا ہے۔ اب بھارت کی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ مگر کنٹرول لائن پر تعینات ہماری افواج دشمن کے تمام جارحانہ منصوبے خاک میں ملانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔