بدعنوانی کا پھیلائو

763

ایک خبر کے مطابق چیف سیکرٹری سندھ نے نیب زدہ افسران کی بحالی کے خلاف دائر درخواست کے سلسلے میں ایک رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرادی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 435 کرپٹ افسران میں سے 217 اساتذہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کی برطرفی سے صوبے کے تعلیمی اداروں میں بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ ایک عربی ضرب المثل کے مطابق مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے معاشرے کے بالائی طبقات میں اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر ان کے زیر اثر معاشرے کے دیگر طبقات خرابیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں کرپشن کے حوالے سے یہ بات سو فی صد درست ہے۔ جنرل ایوب غاصب اور آمر مطلق تھے۔ انہوں نے ملک کی سیاست اور سماجیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان کا دور اقتدار گیارہ سال پر محیط تھا، مگر ان پر کبھی کرپشن کا الزام عاید نہ ہوسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خیالات و نظریات اور طرزِ سیاست نے ملک و قوم کا بڑا نقصان کیا مگر ان کے بدترین مخالف بھی کبھی ان پر مالی بدعنوانی کا الزام عاید نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں کرپشن عام نہیں تھی۔ کرپٹ لوگوں کو معاشرے میں بُرا خیال کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ملک میں کرپشن کی توانا علامتیں بن کر اُبھرے۔ چناں چہ گزشتہ پچیس تیس سال میں کرپشن معاشرے میں اس طرح عام ہوئی ہے کہ معاشرے کا کوئی طبقہ اس سے محفوظ نہیں رہا۔ چناں چہ اب معاشرے میں یہ رائے عام ہے کہ ایماندار وہی ہے جس کو بے ایمانی کا موقع نہیں ملا۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل پرویز خود کرپٹ نہیں تھے مگر انہوں نے سیاست دانوں کو کرپٹ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے 200 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے۔ یہ ایک طرح کی سیاسی رشوت تھی جو جنرل ضیا الحق نے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے معاشرے کے مختلف طبقات کے لوگوں کو کھلائی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی ڈیڑھ سے دو سو ارب کے قرضے معاف کیے گئے۔ اس صورت حال نے سیاست اور کرپشن کو لازم و ملزوم بنادیا۔ البتہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اس بڑے پیمانے پر کرپشن کی کہ معاشرے میں کرپشن کے لیے جو تھوڑی بہت ناپسندیدگی موجود تھی وہ بھی ختم ہوگئی اور اب معاشرے میں کرپشن کے بغیر زندگی کا تصور ناپید ہوگیا ہے۔ جب تک معاشرے میں کرپشن عام نہیں تھی ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک سادگی تھی لیکن بدعنوانی کے پھیلائو نے معاشرے میں پرتعیش زندگی کو ایک آئیڈیل بنادیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ صرف معاشرے کے بالائی طبقات ہی پرتعیش زندگی کا استعارہ تھے مگر اب متوسط اور معاشرتی اعتبار سے زیریں متوسط طبقات بھی پرتعیش زندگی گزارنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا مظہر ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کی تقریب ہے۔ اسلام نکاح کو آسان بنانے کی تلقین کرتا ہے مگر اب ہمارے یہاں شادیاں اتنی مہنگی ہوتی جارہی ہیں کہ متوسط طبقے کے لیے بھی شادیاں دشوار ہوگئی ہیں۔ کیوں کہ معاشرے میں معیار بودوباش کی دوڑ جسے عام طور پر معیار زندگی کی دوڑ کہا جاتا ہے شروع ہوگئی ہے۔ اس لیے اب لوگ رزق کے سلسلے میں حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب معاشرے کے سامنے واحد ہدف یہ ہے کہ پیسہ کمانا ہے خواہ اس کے لیے اقدار، اخلاق اور مذہب کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ریاست ان کا حل نکالتی ہے مگر چوں کہ ہمارا حکمران طبقہ پورا کا پورا کرپٹ ہے۔ اس لیے وہ موثر ہی نہیں ہے۔ چناں چہ آج تک چند لوگوں کے سوا کسی بڑے کرپٹ شخص کو سزا ہی نہیں ہوسکی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹ لوگ احتساب کو سیاسی انتقام باور کرانے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ میاں نواز شریف نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ جناب عالی یہ ہیں وہ ذرائع جن سے برطانیہ کی جائداد خریدی گئی مگر بعدازاں وہ اس بیان ہی سے مکر گئے اور وہ کسی بھی جائداد کی منی ٹریل پیش کرنے سے قاصر رہے۔ ان کی بیٹی مریم نواز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پوری دنیا کے سامنے کہا کہ ان کی برطانیہ میں کیا پاکستان تک میں کوئی پراپرٹی نہیں ہے مگر بعدازاں ثابت ہوگیا کہ ان کی جائداد ملک میں بھی ہے اور بیرون ملک بھی۔ مگر چوں کہ شریف خاندان احتساب کو سیاسی رنگ دینے میں کامیاب ہے اس لیے میاں نواز شریف کا حلقہ اثر شریف خاندان کو کرپٹ ہونے کے باوجود کرپٹ نہیں سمجھتا۔ ایک زمانہ تھا کہ مذہبی تعلیمات کے زیر اثر افرادِ معاشرہ کا ضمیر اتنا قوی ہوجاتا تھا کہ وہ انسان کو رزق حرام کی طرف جانے ہی نہیں دیتا تھا مگر اب مذہب اتنا کم موثر ہوگیا ہے کہ اکثر لوگوں میں یا تو ضمیر موجود ہی نہیں یا ہے تو وہ اتنا موثر نہیں کہ فرد کو کرپشن سے روک سکے۔ چناں چہ اب اساتذہ تک کرپشن میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ اساتذہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کرپٹ اساتذہ نئی نسل کو کیسی تعلیم و تربیت فراہم کررہے ہوں گے؟۔ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم معاشروں میں جب بھی انحرافات اور خرابیاں پیدا ہوئیں علما کے طبقے نے ان کے تدارک کے سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ امام غزالی کے زمانے میں یونانی فلسفہ عام ہوگیا تھا اور اس نے معاشرے کی بڑی بڑی شخصیات کو متاثر کرکے ان کے عقاید بدل ڈالے تھے۔ چناں چہ امام غزالی تن تنہا یونانی فلسفے کے خلاف صف آرا ہوگئے اور انہوں نے اپنے علمی و فکری جہاد سے یونانی فلسفے کا زور توڑ کر رکھ دیا۔ شاہ ولی اللہ کے زمانے میں برصغیر کے مسلمان قرآن و حدیث کے علم سے دور ہوگئے تھے۔ چناں چہ شاہ ولی اللہ نے قرآن و حدیث کے علم کو عام کرنے کے لیے ایک صبر آزما جدوجہد کا آغاز کیا اور ان کی مساعی سے برصغیر میں قرآن و حدیث کا علم عام ہوگیا۔ مولانا مودودی کے بعد تک آتے آتے یہ خیال بہت کمزور پڑ گیا تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ چناں چہ مولانا نے اپنے تاریخ ساز علم کلام سے پوری امت میں اس خیال کو عام کردیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ بلاشبہ اب ہمارے درمیان کوئی بڑا عالم دین موجود نہیں لیکن اگر علما ایک طبقے کی حیثیت سے کرپشن کے خلاف جہاد کا آغاز کریں گے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ آج نہیں تو کل معاشرے کو کرپشن سے پاک کردیں گے۔