سینیٹ اجلاس ، کریمہ بلوچ کی میت پر حکومت اپوزیشن آمنے سامنے

322

 

اسلام آ باد(مانیٹر نگ ڈ یسک)سینیٹ اجلاس کے دوران کریمہ بلوچ کی میت کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے۔ڈان نیوزکے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مردہ پائی جانے والی بلوچ سیاسی کارکن کا معاملہ سینیٹ میں اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کریمہ بلوچ کی میت ائر پورٹ سے اغوا کی گئی اور ان کی والدہ کو دیدار بھی نہیں کرنے دیا گیا۔سینیٹ کے اجلاس میں ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ بلوچستان میں سب کریمہ
بلوچ کی نماز جنازہ ادا کرنا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی ایجنسیاں ایک میت سے خوفزدہ تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ مکران میں نیٹ ورک بند کیے گئے اور اجازت نہیں دی گئی کہ کریمہ بلوچ کی میت کے ساتھ کوئی اس کی قبر تک جا سکے ۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ پورے ملک میں پڑھی گئی اور ان کی بزور شمشیر تدفین کی گئی۔انہوں نے سینیٹ میں کہا کہ کریمہ بلوچ کی والدہ کو آخری دیدار کی اجازت نہیں دی گئی۔سینیٹر نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اینکر اور میڈیا والے بکے ہوئے ہیں کیونکہ کسی نے خبر تک نشر نہ کی جبکہ صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر مکران میں کرفیو لگا دیا گیا۔سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ کریمہ بلوچ لڑنے یا مکران فتح کرنے نہیں آئی تھی لیکن آپ شہید کے تابوت سے بھی خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہے، اس طرح لوگ نفرت کرتے جائیں گے اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ بلوچستان کے لوگ آپ سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔سینیٹر نے کہا کہ اخلاقی طور پر ہر کسی پر فرض ہے کہ خاتون کی لاش کی بے حرمتی پر آواز اٹھائے۔اس معاملے پر تحریک انصاف کے سینیٹر فدا محمد خان نے اپوزیشن کو مخاطب کرکے کہا کہ کریمہ بلوچ کی میت پر تو سیاست نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ خاتون کا جنازہ ہوا ہے جبکہ کریمہ بلوچ کا جنازہ سیاست کے لیے لیاری لے جانا چاہتے تھے۔ فدا محمد خان نے کہا کہ کینیڈا کی حکومت نے کہا کہ کریمہ بلوچ کا قتل نہیں ہوا بلکہ موت طبی تھی تو حکومت اسے قتل کیوں کہہ رہی ہے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا کہ بلوچ سیاسی رہنما کریمہ بلوچ نے راکھی بند پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مدد کی اپیل کی تھی اور مرحومہ پاکستان کو ختم کرنے پر یقین رکھتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی آبائی علاقے میں تدفین کی گئی جبکہ تدفین کو سندھ پولیس نے لیڈ کیا۔انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی میت کو پولیس سیکورٹی میں لے کر قبرستان تک لے کر گئی کیونکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقع پیش آ سکتا تھا۔ انہوں نے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی کے مؤقف کی تردید کی کہ کریمہ بلوچ کی میت کو کسی نے اغوا کیا۔سینیٹر انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ کریمہ بلوچ اور ان کے رفقا نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ہتھیار اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ کریمہ بلوچ کی موت میں پاکستانی ریاست کا ہاتھ ہے تو بات کریں، ساجد کا سوئیڈن میں انتقال ہوا تو اسے بھی ریاست پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔سینیٹر نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر جو تشدد کرتا ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کے لیے لفظ شہادت کا استعمال ہو رہا ہے جیسے ان کی کسی نے جان لے لی ہے۔