آزادی کشمیر اور بھارتی جارحیت

395

مقبوضہ کشمیرکے مظلوم اور بے کس لوگ دہائیوں سے بھارتی فوج کے ظلم وستم کے باوجوداپنے حق کے حصول کے لیے جانیں قربان کرتے آ رہے ہیں اوراس تحریک آزادی کوہرحال میں منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اپناسب کچھ داؤ پرلگاچکے ہیں۔ قابض بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیرمیں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 94 ہزار 888 کشمیریوں کو شہید کیا ہے جب کہ 1990ء کے بعد بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں 7099 افراد دورانِ حراست شہید کیے گئے۔ اس عرصے میں ایک لاکھ 43 ہزار 48 افراد کو گرفتار کیا گیا جب کہ ایک لاکھ 8 ہزار 596 رہایشی مکانوں اور دیگر تعمیرات کو نذرآتش کیا گیا۔ قابض بھارتی فوج نے خواتین کی آبروریزی کوایک جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال کیا ہے اوراب تک 11 ہزار سے زائد خواتین کی عصمتوں کوپامال کیا گیا۔ جولائی 2016ء میں برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد کشمیرمیں تحریک آزادی نے ایک نیا رُخ اختیار کیا اور لوگ قابض بھارتی فوج کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے۔ انہوں نے بھارتی تسلط کے خلاف بھرپورردعمل کا اظہارکیا، جس نے کشمیرکی تحریک آزادی میں ایک نئی جان ڈال دی۔ برہان وانی کی شہادت کے بعدکشمیرمیں سیکڑوں لوگوں کو شہید اور 20 ہزار 873 افرادکوزخمی کردیا اور ان زخمیوں کی کثیر تعداد عمر بھر کے لیے معذورہوگئی۔ اس عرصے میں بھارتی فوج نے نہتے نوجوانوں پرمہلک پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال کرکے 8355 کشمیری نوجوانوں کوشدیدزخمی کردیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد 18 ہزار 990 افراد کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ ان میں سے 818 کو بغیر شنوائی کے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بند کردیا گیا۔ 2017ء میں قابض افواج اور مقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ نے بھارتی حکومت کے احکامات پرحریت کانفرنس اوردیگرآزادی پسندقائدین اورسرگرم رہنمائوں کوبھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کے ذریعے من گھڑت مقدمات کے تحت گرفتارکیااوروہ اس وقت نئی دہلی سمیت کئی جیلوں میں غیرقانونی طورپرنظربندہیں۔ یہ سب کچھ انہیں مرعوب کرنے کے لیے کیاجا رہا ہے، تاہم ایسے ہتھکنڈے کشمیریوں کواپنی منزل سے دُورنہیں کرسکتے۔
کشمیری عوام 1947ء سے بالعموم اور1988ء سے بالخصوص آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں جو دراصل ’’تحریک تکمیلِ پاکستان ‘‘ ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے بیش بہاقربانیاں دی ہیں۔ بھارتی قابض افواج نے بالعموم حالیہ عرصے کے دوران اور بالخصوص 5 اگست کے بعدمقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی ایسی سنگین پامالیاں کی ہیں جس کولکھنے کے لیے قلم بھی ندامت سے منہ چھپاتاپھرتاہے لیکن مودی جیساسفاک درندہ ابھی تک قصرسفیدکے فرعون اوراسرائیل جیسے انسانیت فروش نیتن یاہوکی آنکھوں کاتارا بناہوا ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں اب تک بڑی تعداد میں نہتے مسلمانوں کاخون بہایاجارہاہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کامؤقف ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کی بڑے پیمانے پرتعیناتی اورکالے قوانین کانفاذمقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کاباعث بن رہاہے۔مودی کایہ دعویٰ کہ دیگرممالک کے مقابلے میں بھارتی فوج کاانسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈبہترہے جب کہ اصل حقائق اس کے برعکس ہیں اوربھارتی اتحادیوں کے ملکوں میں اب ان مظالم کے خلاف آواز بلندہوناشروع ہوگئی ہے۔کشمیر میں گزشتہ30برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد شہری شہیداور10ہزارسے زائدلاپتا ہوچکے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیرحکومت کاکہناہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد محض 4 ہزار ہے۔ کشمیر کے طول وعرض میں گزشتہ 30 برس کے دوران 500 سے زائد مزارِ شہداآبادہوچکے ہیں اورہزاروں کشمیری گمنام قبروں میں آسودہ خاک ہیں۔ خود بھارتی نژادامریکی اسکالرخاتون نے درجنوں اجتماعی قبروں کاشواہدکے ساتھ انکشاف بھی کیاہے جوبھارت کی ریاستی دہشت گردی کاواضح ثبوت ہے لیکن ان تمام مظالم کے باوجود تمام قاتل بے گناہ کشمیریوں کے خون سے آلودہ اپنے ہاتھوں کو لہرا کر فتح کاجشن منارہے ہیں جو مہذب اقوام اوراقوام متحدہ کے منہ پرزناٹے دار تھپڑ ہے، جس کی گونج ساری دنیامیں واضح سنائی دے رہی ہے۔
کشمیر میں تحریک آزادی کودبانے کے لیے متعدد کالے قوانین نافذہیں، جن میں آرمڈ فورسزاسپیشل پاورایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ بھی شامل ہیں۔ ان کالے قوانین کے تحت ہزاروں شہریوں کوبلاوجہ پابندِ سلاسل کیاگیاہے جن میں سے بڑی تعداداب بھی بھارت اورمقبوضہ کشمیرکی مختلف جیلوں میں نظربندہے۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم’’ہیومن رائٹس واچ‘‘نے کشمیرمیں نافذکالے قانون’’آرمڈفورسزسپیشل پاور زایکٹ‘‘کوواپس لینے کامطالبہ کرتے ہوئے اسے دنیا کا بدترین قانون قراردیاہے۔ بھارتی درندہ صفت حکمرانوں نے جولائی1990ء میں تحریک آزادی کشمیرکوکچلنے کے لیے بڑے پیمانے پرکالے قوانین نافذ کرکے ریاست کوشورش زدہ قراردیاتھااوربھارتی فوجیوں کو وسیع پیمانے پراختیارات دیے۔ کشمیر میں ’’آرمڈ فورسزاسپیشل پاورایکٹ‘‘ سمیت متعدد کالے قوانین نافذہیں جن کااصل مقصدبھارتی افواج کوانسانی حقوق کی پامالیوں کی کھلی چھوٹ دینا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری کے سرکاری دعووں کے باوجود فرضی جھڑپوں اورحراستی ہلاکتوں کاسلسلہ جاری ہے۔ کشمیر میں 7 ہزار افراد کو دوران حراست قتل کردیا گیا۔ کشمیر کی عدالتوں کی جانب سے نظربند نوجوانوں کی رہائی کے فیصلوں کے باوجود ان پر عمل نہیں کیا جاتا، جس سے انسانی حقوق کی صورتحال اورزیادہ ابتر ہوئی ہے۔
ان تمام متشدد فسطائی ہتھکنڈوں کے باوجودبھارتی فوج 89 سالہ بوڑھے مردِ حریت جناب سیدعلی گیلانی سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ ان کودوسرے کئی ساتھیوں سمیت نظربنداورجیل کی اذیت ناک کوٹھڑیوں میں بند کررکھا ہے۔ کیا جیل کی سلاخیں کشمیرکی آزادی کاراستہ روک سکتی ہیں؟ کیا کشمیریوں کے محبوب لیڈرسیدعلی گیلانی کوعوام کے دلوں سے الگ کیاجا سکتاہے؟ کیا مجاہدہ سیدہ آسیہ اندرابی کے عزم کو کمزور کیا جا سکتا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ایسانہ کبھی ہواہے اورنہ ہی اب ممکن ہے۔
بھارت نے آج پورے خطے کے امن کو داؤ پرلگا رکھا ہے اوراس نے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ لگا رکھی ہے لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں بھارت سمیت تمام دشمنوں کے ناپاک عزائم کوخاک میں ملارکھا ہے۔