فلسطینیوں کا اصولی موقف اور ٹرمپ کی رسوائی

285

مرکز اطلاعات فلسطین
دنیا نے امریکی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ اس نے 4 سال کے دوران جو نسل پرستانہ اقدامات اور فیصلے کیے، ان کے اثرات برسوں تک سامنے آتے رہیں گے۔ ٹرمپ نے قضیہ فلسطین کے منصفانہ حل کے بجائے 4 سال کے دوران نسل پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرے سے قضیہ فلسطین کا وجود ہی مٹانے کی کوشش کی۔ فلسطینیوں‌اور دنیا کے آزادی پسند لوگوں کے ذہنوں میں ٹرمپ کے اقدامات مکروہ یادوں کی شکل میں رہیں گے۔
گزشتہ 4 خشک برسوں میں ٹرمپ نے خود کو فلسطینیوں کے لیے انتہائی سخت اور قابض صہیونیوں کے لیے ’’موم‘‘ ثابت کیا ہے۔ اس سنگ دلی کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ فلسطینی قوم کے آئینی اور مسلمہ حقوق پر ڈاکا زنی میں ٹرمپ نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ دوسری طرف فلسطینی قوم نے تمام تر مشکلات کے باوجود ٹرمپ سے پہلے اور اس کے بعد اپنے منصفانہ حقوق کے حصول کی جدو جہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی قوم اپنے خون کے ساتھ اپنے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس نے دنیا کے سامنے واضح کیا ہے کہ ہم ظلم کی ہر شکل کا مردانہ وار مقابلہ کریں گے چاہے ان کا مقابلہ ٹرمپ سے ہو یا کس اور سے۔
ٹرمپ نے 4 سال کے دوران فلسطینی قوم کو ہر معمولی اور غیرمعمولی سہولت سے محروم کیا تو دوسری طرف صہیونیوں پرنوازشات کی بارش جاری رکھیں۔ ان نوازشات میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا ایک بڑا فیصلہ تھا۔ غاصب صہیونی برسوں سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ٹرمپ نے ان کے اس خواب کو پورا کردیا۔ ٹرمپ نے فلسطینی قوم پر دوسرا ظلم پناہ گزینوں کی امداد بند کرکے کیا۔ امریکا فلسطینی پناہ گزین ایجنسی ’’انروا‘‘ کا ایک بڑا معاون تھا، مگر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی فلسطینی پناہ گزینوں کو دی جانے والی امداد روک دی۔
صرف یہی نہیں، فلسطینی قوم کے خلاف نسل پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا میں موجود ’’پی ایل او‘‘ کے دفاتر بند کردیے۔ امریکا میں موجود فلسطینیوں کے بینک اکائونٹس بند کردیے۔ فلسطینی سفیر کو ملک سے نکال دیا اور فلسطینی قوم کے حقوق کا سودا کرنے کے لیے ’’سنچری ڈیل‘‘ نامی ایک سازشی منصوبہ پیش کیا۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کی رخصتی اور جوبائیڈن کا منصب صدارت پر فائز ہونا قضیہ فلسطین کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی کا باعث نہیں بنے گا۔ امریکا میں کوئی بڑی تبدیلی بالخصوص فلسطین کے حوالے سے امریکی موقف میں آنے والی دکھائی نہیں دیتی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں فلسطینی قوم کے پاس خود کو اپنے قضیے کو زندہ رکھنے کے لیے قومی یکجہتی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ فلسطینی قوم کے تمام طبقات کو صرف قومی مفاد کے لیے فروعی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔
تجزیہ نگار علا الریماوی کا کہنا ہے کہ امریکا میں آنے والی تبدیلی سے اسرائیل کو کوئی تشویش نہیں۔ اسرائیل امریکا سے مطمئن ہے۔ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ امریکا میں فلسطین کے حوالے سے موقف میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ امریکا کی سابقہ حکومتیں ہمیشہ اسرائیل کی خوشنودی کے لیے اقدامات کرتی رہی ہیں۔ امریکا کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت اسرائیل کا سب سے بڑا معاون اور مددگار رہا ہے۔
الریماوی کا کہنا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیا۔ اسرائیل کو ہرطرح کا مہلک اسلحہ بیچا۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کیا۔ اس لیے اگر ٹرمپ نے دو قدم آگے بڑھ کر اسرائیل کی مدد کی تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ جوبائیڈن کی آمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں‌نے کہا کہ امریکا میں حکومت کی تبدیلی سے اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق تب پڑے گا جب امریکا اسرائیل کےحوالے سےجوہری پالیسی تبدیل کرے گا۔ قضیہ فلسطین کے حوالے سے اسرائیل کو امریکا کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں تاہم اسرائیل کو اگر تھوڑی بہت پریشانی ہے تو وہ امریکا کی ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی سے ہوسکتی ہے۔