اسلامو فوبیا اور مغربی میڈیا کی مسلم دشمنی

386

(گزشتہ سے پیوستہ)
اسلام کو پسماندہ اور جدید و قدیم تصورات میں منقسم مذہب ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا مسلم خواتین کو دو باہم متقابل اور متحارب گروہوں میں پیش کرتا ہے۔ مسلم خواتین کے ایک گروہ کوانتہائی پسماندہ، مردوں کے ظلم و ستم کا شکار اور دوسرے گروہ کو انتہائی مضبوط، مردوں کی برابری اور مقابلہ کرنے والی فیمنسٹ ویمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس طرح مغربی میڈیا اسلامی عقائد اور تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے مسلم عورت کی مظلومیت کا رونا روتا ہے اور انہیں بغاوت پر اکساتے ہوئے اپنی حمایت اورمدد کا یقین دلاتا ہے۔ مغرب مسلم خواتین کی سماجی آزادی و خود مختاری کو ’’مذہب سے آزادی‘‘ کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئےاس مقصد کے حصول کے لیے جدید، لبرل مسلم مردصحافیوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کو بھی استعمال کرتا ہے۔ اسلامی اقدار پر عمل کرنے والی خواتین کی کردارکشی اور ان سے امتیازی سلوک کرنے کی غرض سے مغربی میڈیا ان کے لیے جو اصطلاحات استعمال کرتا ہے ان میں ’’مرد عورت الگ الگ، مردوں سےپٹنے والیاں، گالیاں کھانے والیاں، پردے والیاں، نفرت کا شکار عورتیں، آزادی سے بے پروا عورتیں، حقوق سے نابلد خواتین اور انتہا پسند خواتین‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
محمد جنید غوری (2019) نے ایک تحقیق میں آسٹریلیا کے اخبارات کے ایک سال (2016-2017) کے اداریوں کے نمونے جمع کیے۔ اس مطالعےکے بعد محقق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آسٹریلیا کے صرف ایک مشہور اخبار ’’دی ایج‘‘ کے اداریوں میں مسلمانوں کے خلاف سال بھر میں جس نفرت کا اظہار کیا گیا اتنی نفرت کا اظہارشاید کسی میڈیا نے نہیں کیا ہوگا۔ اس اخبار کے اداریے ’’اسلامی ریاست پر ہتھوڑا چلایا جائے‘‘ اور دیگر اداریوں میں مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کے اظہار کے لیے جو اصطلاحات استعمال کیں وہ درج ذیل ہیں:
اسلامی شیطانی ریاست، نام نہاد خلافت، جہادی جعلی دعوے، اسلامی ریاست کے جنگجو، جہادی بھرتی، ناقابل برداشت جہادی، بنیاد پرست اسلامی طریقے، مذہبی غلامی، نام نہاد مذہبی آدرش، اسلامی خوف، عالمی اسلامی غم و غصہ، غیر منصفانہ متحرک لوگ، عالمی غم و غصے کے امین، مشتبہ اسلامی برادری، خونخوار اسلامی لاشیں، نفرت انگیز اسلامی مبلغین، اسلامی جہادی امیگرنٹ، ہولناک اسلامی تبلیغی نفرت، انسانی حقوق کے دشمن، عالمی اسلامی بحران، خود ساختہ مسلم ائمہ، جہادی ملاؤں کا ٹولہ، بنیاد پرست پیغام رساں، مذہبی دعووں کے برے اعمال، مجرمانہ اسلامی عقیدے، ہجوم مسلم، فریب خوردہ مسلم، جنونی بوڑھے مسلمان، قرون وسطیٰ کے باسی، بدنظمی کے اسلامی مراکز(مساجد)، موت کے اسلامی گلے، آبائی اسلام پسند گروہ، بھڑک اٹھنے والے مسلم جہادی، اسلامی بھرتی زون، اسلامی شورش پسند، جنونی بندوق بردار، اسلامی جہادی لعنت وغیرہ۔
سان اور سبلی(2018) نے اس بات پر تحقیق کی کہ مذہبی تعلیمات کو فلموں میں کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔ اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ کچھ فلموں میں مذہبی تعلیمات، عبادات، اخلاقی اقدار، بزرگوں اور والدین کے ساتھ احسن سلوک وغیرہ کو مثبت انداز میں پیش کیا گیا تاکہ معراشرے کی ان مثبت خطوط پر تربیت کی جا سکے۔ اس کے ساتھ اسی تحقیق میں برطانیہ، امریکا، کنیڈا اور آسٹریلیا میں 1996 سے 2006 تک شائع ہونے والے 8 لاکھ مضامین کا مطالعہ بھی کیا گیا جن میں مذہبی تعلیمات کو معاشرے کے مفاد میں مثبت انداز سے پیش کیا گیا تھا۔ اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اگر میڈیا چاہے تو دیگر مذاہب کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی متوازن تصویر پیش کرکے اسلامی تعلیمات کو بھی معاشرے کے مفاد میں استعمال کر سکتا ہے لیکن اسلاموفوبیا سے متاثر میڈیا ہائوسز کی اکثریت ایسا نہیں کرتی۔
کچھ تحقیقات میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ بہت سے میڈیا ہائوسز کسی خبر کے ’’ذرائع‘‘ یا پولیس وغیرہ کا حوالہ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس خبر کی رپورٹنگ ’’غیر جانبدارانہ‘‘ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس وغیرہ سے ایسی باتیں منسوب کرکے خبر کےمتن میں شامل کر دی جاتی ہیں جو پولیس نے رپورٹ میں نہیں لکھی ہوتیں اور قارئین یا ناظرین کو یہ باور کرا کر گمراہ کردیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔ مثلاً 27 اپریل 2019ء کو الجزیرہ میں ایک خبر شائع ہوئی جس کا متن اس طرح پیش کیا گیا کہ ’’پولیس نے کچھ ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جو محمد ہاشم، محمد زہران سے وابستہ ہیں اور ان کا نام ایسٹر سنڈے بم دھماکوں کے سرغنہ کے طور پر لیا جاتا ہے‘‘(Relatives of Suicide, 2019, p.2) اسی اخبار نے ایک اور خبر میں لکھا کہ ’’پولیس کے مطابق ایک شخص ہجوم میں مارا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ اور لیونٹ گروپ سے متاثر تھا‘‘ (Australia police 2018, p.1) ان خبروں میں ’’پولیس کے مطابق‘‘ اور ’’کہا جاتا ہے‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرکے ساری ذمے داری پولیس پر ڈال دی گئی اور اپنے آپ کو غیر جانبدار بتاتے ہوئے جانبداری کا عمل برتا گیا۔
اسلام سے متعلق اصطلاحات کو غلط رنگ اور منفی معنوں میں پیش کرنے کی ذمے داری صحافیوں پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس یا کسی اور ادارے پر پر عائد نہیں ہوتی۔ کیونکہ خبر کا متن نیوز روم میں تیار ہوتا ہے اور اس کی زبان اور بیان کے ذمے دار صحافی اور میڈیا ہاؤس ہوتے ہیں۔ ان اصطلاحات کو غلط رنگ دینے کا فیصلہ صحافیوں، ایڈیٹر اور میڈیا مالکان کا ہوتا ہے۔ خبر کی اشاعت سے قبل کئی ذیلی اعمال شامل ہوتے ہیں۔ خبروں اور مضامین کے متن لکھے جاتے ہیں، پھر پروف ریڈنگ ہوتی ہے، ان میں اضافہ اور ترامیم ہوتی ہیں اور پھر ایڈیٹر کی منظوری کے بعد ان کی اشاعت ہوتی ہے۔ اگر وزارت اطلاعات و نشریات اور میڈیا ہائوسز مذاہب سے متعلق رپورٹنگ کے لیے رہنما اصول وضع کرکے، صحافیوں، اینکرزاور ایڈیٹرز کو ان پر سختی سے عمل کا پابند کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان پر عمل نہ ہو۔
اس سلسلے میں صحافیوں اور مدیران کی رہنمائی کے لیے تربیتی کورس بھی کرائے جا سکتے ہیں تاکہ وہ ان اصطلاحات کے درست معنی ،خود سمجھیں اور صحیح طورپر پیش بھی کریں، لیکن اگر حکومتی اور ادارتی سطح پر متعصبانہ ہیراپھیری اور جانبدارانہ رپورٹنگ کو پالیسی اور ایجنڈے کے طور پر اپنایا گیا ہو تو پھر کسی قسم کی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کئی دہائیوں سے اسلام کے بارے میں ایک عمومیت پھیلانے اور خبروں کی سرخیوں میں اسلام کے لیے انتہاپسند اور بنیاد پسند مذہب جیسے الفاظ استعمال کرنے سے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ مغرب کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ اگر یہ سوچاسمجھا منصوبہ نہ ہوتا تو دہشت گردی اور انتہاپسندی کی قانونی تعریفات میں اسلام کا کوئی لفظ موجود نہیں، لیکن میڈیا ان اصطلاحات کو پیش کرتے ہوئے ان کے ساتھ اضافی طور پر اسلام کا اسم صفت لگا کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟
میڈیا لٹریچر پر کام کرنے والے بہت سے غیر جانبدار محققین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خبریں محض کسی عنوان پر حقائق پھیلانے کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ عوام کو آگاہ رکھنے کی ایک ایسی خدمت ہے جس سے عوام کو اچھائی کی طرف راغب کرنے کی تربیت بھی دی جا سکتی ہے۔ میڈیا کے ناظرین اور قارئین کو چاہیے کہ وہ ایسے ذرائع ابلاغ استعمال کریں جو کم متعصب ہوں اور کسی نہ کسی حد تک مثبت تربیت کا سامان رکھتے ہوں۔ معاشرے کی مجموعی ذمے داری ہے کہ تعصب کو رد کرتے ہوئےسچائی کی تلاش پر زور دے اور عوام کو چاہیے کہ خود کو اس طوق سے آزاد کریں جو میڈیا نے انفارمیشن کے نام پر ہمارے گلے میں ڈال رکھاہے۔ جو لوگ معلومات اور تعلیم و تربیت کے لیے صرف میڈیا پر انحصار کرتے ہیں ان کوآج کے ماحول میں گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
OOO