سیاسی جماعتوں کی کٹی پتنگیں

495

یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ پاکستان ایک خالص سیاسی جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے جس میں کلیدی کردار آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم کا ہے لیکن نجانے ہم قیام پاکستان کے بعد اس کلچر کو جاری کیوں نہ رکھ سکے، ہم دیکھتے ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان تک ہمارے ہاں سیاسی و جمہوری کلچر زوال کا شکار رہا۔ اس صورتحال کے ذمے دار بعض لوگ جنرل ایوب خان کے دور اقتدار کو قرار دیں گے لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جنرل ایوب خان کے مارشل لا اور قیام پاکستان کے دوران گیارہ سال پر محیط عرصے میں بھی ہماری اُس وقت کی سیاسی قیادت نے سیاسی و جمہوری کلچر کو پروان چڑ ھانے کے لیے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔
یہ تمہید جہاں پچھلے دنوں جمعیت (ف) میں برپا ہونے والی بغاوت اور اس کے نتیجے میں چوٹی کے چار راہنمائوں کا پارٹی سے اخراج اور بعد ازاں ان راہنمائوں کی جانب سے الگ دھڑے کے قیام کے اعلان کے تناظر میں باندھنی پڑی ہے حالانکہ جمعیت علماء اسلام میں اس طرح کاکوئی دھڑا پہلی دفعہ قائم نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی اس میں جمعیت (درخواستی)، جمعیت (قادری)، جمعیت (س) اور جمعیت (نظریاتی) جیسے گروپ بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں لیکن آج ان گروپوں کا ملکی سیاست میں کوئی خاص عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں بڑی اور قابل ذکر جماعتوں میں بغاوتیں برپا کرنے یا پھر ان جماعتوں میں نقب لگانے کی تاریخ ویسے تو کافی طویل اور پرانی ہے لیکن اس طرز عمل نے ان جماعتوں سے زیادہ نقصان بغاوت کرنے والوں کو پہنچایا ہے۔ یاد رہے کہ اس سلسلے میں پہلا نشانہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس وقت بنایا گیا تھا جب پہلے اس میں انفرادی بغاوت برپا کرتے ہوئے مولانا کوثرنیازی اور غلام مصطفی کھر جیسے بھٹو صاحب کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے راہنمائوں کو اس سے علٰیحدہ کیا گیا تھا اور بعد میں سندھ کی سیاست کی ایک نمایا ں شخصیت غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے بطن سے نیشنل پیپلز پارٹی کو جنم دیا گیا تھا۔ آج پاکستان کی سیاست کی منصہ شہود پر ہمیں نہ تو نیشنل پیپلز پارٹی نظر آتی ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کو داغ مفار قت دینے والے سیاسی ہیوی ویٹس کا کوئی نام و نشان نظر آتا ہے۔ اس دور کے بعد پیپلز پارٹی میں ایک اور بغاوت سابق صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری کی قیادت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی بر پا کی گئی تھی جنہوں نے بعد میں ملت پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن آج ملت پارٹی بھی قصۂ پارینہ بن چکی ہے اور اس نام کی کوئی جماعت ملکی سیاست میں ہمیں سرگرم عمل نظر نہیں آتی ہے۔ نوے کے عشرے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان تو ہمیں پاکستان کا میدان سیاست کافی گرم نظر آتا ہے لیکن یہ عرصہ کم از کم پارٹیوں کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور بغاوتوں کے حوالے سے کافی حد تک پر سکون دور کہلایا جا سکتا ہے البتہ جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد جب انہیں بطور ایک فوجی آمر سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو حسب توقع ان کی نظر التفات اس جماعت پر پڑی جس سے انہوں نے اقتدار حاصل کیا تھا۔ جی ہاں میرا اشارہ مسلم لیگ(ن) کی جانب ہے جس میں پہلے میاں اظہر کی قیادت میں ہم خیال لیگ کا دھڑا قائم کیا گیا اور بعد ازاں چودھری برادران نے قائد اعظم مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیا درکھ کر مسلم لیگ(ن) کا جنازہ نکالنے کی کوشش کی۔
گو اس عارضی بندوبست کے ذریعے وقت کا آمر اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب رہا لیکن آج نہ تو اس آمر کا اور نہ ہی اس کی قائم کردہ پارٹی کاکوئی وجود نظر آتا ہے۔ اسی طرح آج چودھری برادران کی قیادت میں مسلم لیگ(ق) موجود تو ہے لیکن اس کا پاکستان کی سیاست میں وہ کردار او رعب ودبدبہ ہرگز نہیں ہے جو اسے اس صدی کے پہلے عشرے کے دوران حاصل تھا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) سے ماضی میں مسلم لیگ ( قاسم)، مسلم لیگ (جونیجو)، مسلم لیگ (چھٹہ) اور مسلم لیگ (ضیاء) کے گروپ وجود میں آنے کے علاوہ جاوید ہاشمی اور چودھری نثار جیسے چوٹی کے راہنما بھی اپنی راہیں الگ کرتے رہے ہیں لیکن آج ملکی سیاست میں مسلم لیگ(ن) تو ایک مستحکم جماعت کے طور پر کھڑی نظر آتی ہے لیکن اس سے الگ ہونے والے گروپ اور راہنما کٹی پتنگوں کی عملی مثال بنے نظر آتے ہیں۔
ماضی میں اے این پی سمیت بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی اس ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ نہیں رہیں جس کی نمایاں مثال اے این پی سے معروف قوم پرست راہنما شیر بازخان مزاری کے علاوہ اجمل خٹک، افرسیاب خٹک، افضل خان لالہ اور لطیف آفریدی ایڈوکیٹ کی علٰیحدگی اور آخرالذکر شخصیات کا پہلے پختون خو اقومی پارٹی اور بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے نام سے الگ پارٹیوں کا قیام تھا جب کہ اس ضمن میں بیگم نسیم ولی خان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے جب انہوں نے چند ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر اے این پی (ولی) کے نام سے الگ دھڑا بنا کر اے این پی کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اے این پی کو داغ مفارقت دینے والی یہ سب شخصیات بعد میں اپنے کیے پر پشیمان ہوکر یا تو واپس اے این پی میں شامل ہونے پر مجبور ہوئیں اور یا پھر ان کے نام اور جماعتیں قصہ پارینہ بن چکے ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی راہنما کی عزت اور شہرت اپنی پارٹی سے وفاداری میں ہے ادھر ادھر زقندیں بھرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔