مفلوج جمہوریت

285

ان دنوں ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جن پر عوام تو کیا حکمرانوں کی رسائی بھی ممکن نہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزامات کی سنگ باری کررہے ہیں۔ مگر اس سنگ باری میں عوام مضروب ہور ہے ہیں۔ علاوہ ازیں عوام یہ سوچ سوچ کر ذہنی اذیت میں مبتلا ہورہے ہیں کہ کون سچا ہے کون جھوٹ بول رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی جماعت کا پارٹی فنڈ صاف و شفاف نہیں۔ اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کے ٹکٹوں کی نیلامی کرتی ہیں جو زیادہ بولی لگاتا ہے ٹکٹ اسی کو مل جاتا ہے۔ گویا رکن اسمبلی ہونے کے لیے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ اور پھر اس سرمایہ کاری میں لگایا ہوا پیسہ سود سمیت موصول کیا جاتا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی اپنے امیدوار کو نہ صرف ٹکٹ دیتی ہے۔ بلکہ الیکشن کے دوران جو اخراجات ہوتے ہیں وہ بھی پارٹی فنڈ سے ادا کیے جاتے ہیں۔
الیکشن کے نام پر دوسری جماعتیں فنڈنگ کے نام پر ایسے ایسے لوگوں سے رقوم کی وصولی کرتے ہیں جن کے بارے میں عوام سوچ بھی نہیں سکتے تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ مودی نواز شریف کا یار ہے۔ تب ہی اسے آموں سے بھرے ٹوکرے اور قیمتی ساڑھیاں بھیجی جاتی تھیں۔ تحریک انصاف والوں نے مودی کو نواز شریف کا یار بنایا تھا اور حزب اختلاف نے بھارت اور اسرائیل کو وزیر اعظم عمران خان کا سرپرست بنا دیا۔ پہلے غدار ساز فیکٹریاں بنائی گئیں تھیں اب دشمنوں کا لے پالک بنایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جنہیں غدار قرار دیا گیا تھا انہیں حب وطن تسلیم کرلیا گیا ہے اب اسرائیل بھارت کو مخالفین کا سرپرست بنایا جارہا ہے۔ ضرورت پڑنے پر انہیں بھی حب الوطنی کی سند دے دی جائے گی۔
یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ سیاست دان ملک و قوم کی بھلائی کے بارے میں سوچنے کے بجائے مخالفین کی کمزریوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے مخالفین کو چور لٹیرا ور ڈاکو ثابت کرنے کے لیے جتنی توانائی ضائع کی ہے اگر اتنی ہی توانائی ملک کو مستحکم اور عوام کو خوشحال کرنے میں لگاتے تو ان کے مخالفین ناگہانی موت مر چکے ہوتے۔ مگر یہاں تو سارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ عوام کے دل میں سابق حکمرانوں کی محبت جاگ اٹھی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں ایسی شجر کاری ہورہی ہے جو کسی بھی وقت توانا درختوں کی صورت اختیار کرلے گی۔ اور مخالفین اس کے سائے میں پر سکون مزے نیند کے مزے لے رہے ہوں گے۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے حتی کہ مخالفت کی بھی ایک حد ہوتی ہے جو لوگ اس حد کو پار کرلیتے ہیں بہت رسوا ہوتے ہیں لوگ انہیں باہر والا سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک عزیز میں عزیزانِ مصر نے تباہی مچانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دانش ور اچھے کام میں بھی خرابی کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے پولی ٹیکنک اسکولوں کا اجرا کیا تو پرنٹ میڈیا کے بڑے ناموں نے بڑا ہنگامہ کیا۔ اور ٹیکنکل ایجوکیشن کو قومی سرمایہ کی بربادی قرار دیا۔ اس زمانے میں الیکڑونک میڈیا نہیں تھا اگر یہ دنوں مل جاتے تو ٹیکنکل ایجوکیشن کو پروان چڑھنے ہی نہ دیتے خدا کرے ہماری زندگی میں ایسا وقت آئے جب عدلیہ غلط بیانی پر ازخود نوٹس لے اور جھوٹوں کا معاشرتی اور سماجی بائیکاٹ کرنے کے احکامات جاری کرے۔
حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بھارت اور سرائیل سے فنڈ لیا ہے جو ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ جواباً عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر بیرونی ممالک سے الیکشن کے لیے فنڈ لیا ہے۔ مگر موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان دو بڑی جماعتوں کو جن ممالک نے فنڈنگ کی ہے وہ دوست ممالک ہیں۔ اس لیے نام ظاہر نہیں کیے جاسکتے دوست ممالک سے فنڈنگ لینے میں کوئی ہرج نہیں اصل جرم دشمن ممالک سے الیکشن مہم کے لیے فنڈنگ لینا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نیب فنڈنگ کے معاملے میں کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ چھے سال سے اس معاملے میں پیشی پیشی کھیلا جارہا ہے۔ سیاسی دانش ور کہتے ہیں لنگڑی لولی جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔ اگر معاملہ لنگڑی لولی ہونے تک رہتا تو بھلائی کی صورت نکل سکتی تھی۔ مگر مفلوج جمہوریت میں تمام ادارے مفلوج ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سچ ایک ایسا جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ سچ وقتی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے۔