بائیڈن کا نیا شوشا

740

نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے افغان امن عمل کو جھٹکا لگایا ہے یہ کہہ کر ٹرمپ دور میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر نظرثانی کی جائے گی۔ بائیڈن نے یہ ثابت کیا ہے کہ امریکا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پہلے والوں کی طرح نیا صدر بھی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ پچھلے حکمران بھی ایک جانب معاہدہ کرنے اور دوسری جانب اس کی کھلی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں۔ پاکستان سے ایف 16 کا معاہدہ اس کی بدترین مثال ہے۔ جوبائیڈن کے قومی سیکیورٹی کے مشیر جیک سولیون نے کہا ہے کہ ہمیں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سابق امریکی حکومت اور دوحا میں طالبان کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے کیا نکات ہیں۔ جیک سولیون نے یہ نہایت گھٹیا اور بچکانہ مذاق کیا ہے۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ حکومتوں کے درمیان معاہدوں کا پورا پورا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ یہ کوئی پرچون کی دکان سے خریدا گیا سودا تھا جو کل پیسے مل جانے کا وعدہ کرکے لیا گیا تھا۔ اس قدر احمقانہ بات امریکی ذمے دار شخص کر رہا ہے جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت نیت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ طالبان نے شرائط پر کس حد تک عمل کیا۔ لیکن دنیا یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ امریکی حکومت نے اور گزشتہ حکومتوں نے اب تک اپنے معاہدوں کی کس حد تک پاسداری کی ہے اور موجودہ معاہدے کی امریکا نے کس حد تک پاسداری کی ہے۔ اس کا آخری جملہ ہی درست ہے کہ معاہدے کے تمام نکات کا احترام کرنے سے ہی ڈیل برقرار رہے گی۔ جوبائیڈن اپنے مشیر سے پوچھیں کہ اگر انہوں نے چارج لے لیا ہے تو پہلے معاہدہ طلب کرکے اس کا اچھی طرح مطالعہ کریں اس کے بعد کوئی بات کریں۔ امریکی مشیر کو تو ایسے بیان پر فوری طور پر فارغ کر دیا جانا چاہیے۔ طالبان نے ابھی کوئی ردعمل تو نہیں دیا ہے لیکن امریکی مشیر اب کہتے ہیں کہ نیٹو اتحادیوں اور غنی حکومت کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ یہ کیسے حکمران ہیں کہ کسی کو اعتماد میں لیے بغیر اتنا بڑا معاہدہ کر لیا گیا اور نیٹو اتحادی کہاں مر گئے تھے جب معاہدہ ہو رہا تھا۔ صاف نظر آرہا ہے کہ امریکی حکومت معاہدے سے فرار کی راہ تلاش کر رہی ہے۔