آئی ایم ایف کا پاکستانی بزرگ شہریوں پر حملہ

1469

وزیراعظم نے 19جنوری کو مالی سال 21۔2020ء کے لیے وزارتوں کی کارکردگی کے معاہدوں پر دستخطوں کی تقریب اور وفاقی وزارتوں کو کارکردگی سے متعلق اہداف سونپنے کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پنشن بہت زیادہ بڑھتی جا رہی ہے اور ماضی میں منصوبہ بندی نہیں کی گئی، ڈاکٹر عشرت حسین کی طرف سے اس سلسلے میں اصلاحات کا ہم انتظار کر رہے ہیں، ملائیشیا میں پنشن کو بچت میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو ملک کے لیے اثاثہ بن چکی ہیں۔ لیکن عمران خان کو اس بات کا بھی علم ہو گا کہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کے پی ایف سے اربوں روپے کی لوٹ مار کی جا چکی ہے اور ان کی حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکی ہے۔ پنشن بہت زیادہ بڑھتی جا رہی ہیں کا شور گزشتہ چند ماہ سے بہت تیزی سے اٹھتا جارہا ہے اور عمران خان اپنے تمام ہی خطاب میں پنشنرز کو کسی نہ کسی طرح کوستے رہتے ہیں اس کی اصل وجہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا پاکستان میں پنشنرز کی تعداد کم کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت پانچ سال تک بڑھانے کی شرط رکھنا ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ آئی ایم ایف نے کبھی نہیں پوچھا کہ تیرہویں بار قرضہ لیا جا رہا ہے، جو پہلے لیا تھا وہ کہاں استعمال ہوا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا سارا فنڈ حکومت ِ پاکستان کے بجائے ان کے ملازمین نے خرچ کیا اور ہر ملازم پاکستان کی معیشت کو بر باد اور ملک میں غربت اور بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ کر کے گیا۔
پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا بھر میں اسلامی اور فلاحی ملک کہلاتا ہے لیکن اس کی پوری معیشت اور حکومت کو چلانے کی ہدایت آئی ایم ایف سے وصول کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف بزرگ شہریوں کو غربت اور حقارت کے ساتھ موت کے منہ د ھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ حکومتی پنشن وصول کر نے والوں کو گولڈن ہینڈ شیک کے دھوکے کی مدد سے ان کی پنشن کو ختم کیا جائے اور اس کی دوسری شرط یہ ہے کہ سرکاری مدت ِ ملازمت میں پانچ سال کی توسیع کرتے ہوئے اس ملازمت کے بعد پنشن کے بجائے گولڈن ہینڈ شیک دے کر زندہ در گور کیا جائے، ہماری حکومت آئی ایم ایف کی ان دونوں شرائط کو سر جُھکا کر عمل کر نے کو تیار ہے۔ قبل ازیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کا مقصد پاکستان سے اپنے قرضوں کی وصولی ہے یا پاکستانی معیشت کو تباہ و برباد اور عوام میں غربت بے روزگاری اور بھوک میں اضافہ کرنا ہے۔ وزیرِ اعظم کے بارے میں حکومت ایسا کر تو نہیں سکتی لیکن اس کو چاہیے کہ وہ مدت ملازمت، ٹیکسوں میں اضافے اور اداروں کی نج کاری کے بجائے معیشت بہتر کرنے کی پالیسیاں آئی ایم ایف کے ملازمین سے ہٹ کر اپنائے۔ کسی بھی ریاست میں سماجی ڈھانچہ سب سے اہم ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں تعلیم، صحت اور صاف پانی سمیت بنیادی سہولتیں ہی ناپید ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کے دباؤ پر سرکاری مدت ملازمت میں اضافہ کیا گیا تو تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا، پہلے ہی بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے، ایسے میں سرکاری نوکریاں بھی کم ہوگئیں تو نوجوانوں کے حالات کیا ہوں گے، اس لیے حکومت کو یہ شرط مسترد کرنی چاہیے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پنشنرز کی ادائیگیوں کا مسئلہ معیشت کے لیے بڑا اہم ہے۔ مشیر ِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ،گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر، سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط کے علاوہ بھی پنشنرز کی ادائیگیاں بجٹ میں رکھنے سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ایک دن بجٹ کا زیادہ حصہ پنشن میں چلا جائے گا، کیونکہ سالانہ لاکھوں پنشنرز کو اربوں روپے پنشن کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے پاکستانی ملازمین سے معلوم کیا جائے کہ ان پاس کوئی متبادل تجویز ہوسکتی ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں یہ تجویز کافی عرصہ سے ناگزیر سمجھی جا رہی ہے کہ پنشن فنڈ الگ سے قائم کیا جائے جس میں متعلقہ محکموں سے پنشن کی مد میں فنڈز منتقل ہوتے رہیں تاکہ ادائیگیاں بھی ہوتی رہیں اور اسے سالانہ بجٹ سے الگ کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح اب سرکاری ملازمتوں میں بھی زیادہ تر کنٹریکٹ پر بھرتیاں ہوتی ہیں ان پر پنشن کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومعیشت فیض اللہ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیںکہ یہ آسان فیصلہ نہیں، اس پر متعلقہ محکموں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت یہ شرط تسلیم کرنے کے بجائے کوئی اور متبادل تجویز پیش کر دے، ان کہنا ہے کہ جب یہ معاملہ کمیٹی کے سامنے آیا تو اس پر ملکی مفاد کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ اس بات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ تحریک ِ انصاف اس مسئلے کو حل کرنے اور آئی ایم ایف سے فنڈ لینا چاہتی ہے، آئی ایم ایف کی شرط اپنی جگہ لیکن سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں پانچ سال اضافے سے پنشنرز کی تعداد تو کم ہوگی ہی اس سے حکومت کے خیال میں نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک میں پہلے ہی مختلف اداروں سے برطرفیاں کی جارہی ہیں اور نجی شعبے میں ملازمتوں کا تحفظ نہیں، ایسے میں سرکاری ملازمتوں کے دروازے بھی لوگوں پر بند ہوجائیں گے جس کے بعد عوام ظلم وجبر بھر پور تاجروں ،صنعت کاروں اور جاگیرداروں، وڈیروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس پوری صورتحال میں سیاسی حکومتیں اپنا یہی نعرئہ مستانہ لگاتی رہیں کہ وہ عوام ترقی اور خوشحالی ہی کے لیے ان کی جدِجُہد جاری رہے گی۔