منیجر کی انگریزی کا مذاق اور وزیر اعظم کے کام

520

اسلام آباد کے ریسٹورنٹ مالکان کی جانب سے منیجر کی انگریزی کا مذاق اُڑانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین اپنا اور پھر اپنے منیجر کا تعارف کرواتی ہیں اور پھر ان میں سے ایک منیجر سے سوالات پوچھتی ہے اور پھر انگریزی میں بات کرنے کا کہتی ہے اور پھر منیجر کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی پر خاتون کہتی ہیں کہ یہ ہمارے منیجر ہیں جو ہمارے پاس 9 سال سے ہیں، اور یہ وہ بہترین انگریزی ہے جو یہ بولتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ان کے مطابق انہوں نے تفریح اور وقت گزاری کے لیے کیا۔ یہ عمل نہ صرف ذہنی پسماندگی، دیوالیہ پن اور تربیت کے فقدان کی علامت ہے وہاں سوچنے اور فکر کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے کہ ہم کس انحطاط کی طرف بڑھ رہے ہیں اور آج بھی غلامی کے دور ہی میں انگریزی کا طوق ڈالے پھر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انگریزی دنیا کی اہم زبان ہے، اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی، سمجھی اور پڑھی بھی جاتی ہے۔ لیکن اس کمپلیکس یا احساس برتری کا شکار ہونا کہ جو شخص انگریزی بول سکتا ہے صرف وہ ہی پڑھا لکھا ہے یہ انتہائی پست ذہنیت کی علامت ہے جس کا اظہار اسلام آباد کے ہوٹل میں پیش آیا ہے۔ ہر علم والا شخص قومی، مقامی زبان کو ترقی کا زینہ سمجھتا ہے اور ہر وہ شخص جو احساس کمتری کا شکار ہو اس کا جہل انگریزی میں اسی طرح بولتا ہے اور یہ صرف عزت و ذلت کی بات نہیں ہے بلکہ انگریزی کا کمپلیکس ہمیں کبھی بھی ایک باصلاحیت و باشعور قوم نہیں بننے دے گا۔ اخلاقی گراوٹ کے ساتھ ہر ہر شعبے کے لیے مضر ہے۔ ماضی میں عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس صاحبان جواد ایس خواجہ، ظہیر جمال اور آصف سعید کھوسہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انگریزی زبان انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں انگریزی زبان کو مرعوبیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بیش تر ترقی یافتہ ممالک میں انگریزی زبان کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ روس، جرمنی، فرانس، جاپان، چین بلجیم، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، ہالینڈ وغیرہ میں انگریزی زبان کو کوئی امتیازی مقام حاصل نہیں ہے۔ ان ممالک میں انگریزی میں مہارت کو قابل فخر بھی نہیں گردانا جاتا۔ ترکی میں ساری انگریزی چیرہ دستی ناکام رہی اور وہ اپنی زبان اور تہذیب پر فخر کے ساتھ بغیر شرمندگی کھڑا رہا اور آج بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اور اس کی پوری قوم کا یہی حال ہے، ان کے صدر اردوان سمیت کئی اہم لوگ پاکستان تسلسل کے ساتھ آجارہے ہیں لیکن وہ انگریزی کے بجائے ترکی زبان ہی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔ وہاں تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کے لیے ترکی زبان ہی کو بطور میڈیم استعمال کیا جاتا ہے۔ جب ریاست اور حکومت کا ویژن صاف ہو اور ایک پورا ماحول بناتے ہیں تو قوم میں بھی وہی شعور پیدا ہوتا ہے، ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا ہے جس کا نتیجہ سامنے ہے۔ شاید دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور ترقی کی ہو۔ ہم اس وقت تک کسی بھی شعبے میں ترقی نہیں کرسکتے جب تک کے اپنی قومی و مادری زبان کو تعلیم کی زبان، دفتر کی زبان اور ہر ہر شعبے کی زبان نہیں بنادیتے، انگریزی زبان کی تعلیم میں کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی تو سیکھ جاتے ہیں لیکن تہذیب، شائستگی اور آداب نہیں سیکھ پاتے جو ایک قومی المیہ ہے اور ہمارا معاشرہ ہر روز ایسے المیے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ قائد اعظم اس کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور اسی لیے انہوں نے مسلم لیگ کے 10 اپریل 1946ء کو دہلی میں ہونے والے اجلاس میں قیام پاکستان سے قبل ہی فرما دیا تھا کہ: ’’میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی‘‘۔ اور پھر قیام پاکستان کے بعد 21 مارچ 1948ء کو فرمایا تھا کہ: ’’اردو کے سوا کوئی زبان نہیں‘‘۔ بدقسمتی سے قائد اعظم کے بعد اس ویژن کے قریب کا بھی کوئی فرد حکمرانی کے منصب پر قائم نہیں رہا اور جب کہ وطن عزیز کو آزاد ہوئے 72سال ہو چکے ہیں، لیکن آج تک کوئی بھی حکومت اُردو کو مکمل طور پر سرکاری زبان کی اہمیت نہیں دِلا سکی۔ اس واقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں بیش تر لوگوں کو انگریزی نہیں آتی، ان کے سامنے انگریزی بولنا لوگوں کی توہین کے برابر ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کی عزت کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم کا تبصرہ درست ہے لیکن اُن کا منصب صرف تبصرے کے لیے نہیں ہے بلکہ اقدامات اٹھانے کے لیے ہے۔ آپ نے اپنی ایک ڈاکو منٹری میں ایچی سن کالج میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ: ’’اس انگریزی زبان اور کلچر کی وجہ سے ایک حاکم طبقہ پاکستان میں پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ آپ کا کہنا ٹھیک اور یہ اس امارتی، اشرافی سوچ کی عکاسی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کی حکومت اردو کو نافذ نہیں کرسکیں تو کیوں نہیں آپ اس حاکم طبقے کو ختم نہیں کرتے۔؟ جبکہ نفاذ اردو کے بارے میں عدالت عظمیٰ کا واضح فیصلہ موجود ہے جس کو بھی پانچ سال گزر چکے ہیں۔ ہمیں کمتری اور برتری کے معاشرتی معیارات کو اگر بدلنا ہے تو سوچ اور فکر کے زاویے کو بدلنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب بانی پاکستان کی سوچ اور فکر کے مطابق اس ملک کو چلایا جائے۔