کرکٹ اور ٹریفک جام

454

نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے جنوبی افریقا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچز کے سلسلے میں سٹرکیں بند کرنے سے اطراف میں گھنٹوں ٹریفک کا جام ہونا معمول بن گیا ہے جس کی وجہ سے کراچی کے شہری سخت اذیت اور تکلیف کا شکار ہیں۔ ابھی میچ شروع بھی نہیں ہوا یہ صورت حال ہے جب میچ شروع ہوگا ان دنوں میں ٹریفک پولیس کے مطابق صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک مختلف علاقوں سے نیشنل اسٹیڈیم کی طرف آنے جانے والی مختلف شاہراہوں پر ٹریفک مکمل بند رہے گی۔ اس سے جہاں دیگر چیزیں متاثر ہوتی ہیں وہاں آغا خان اسپتال اورلیاقت نیشنل اسپتال آنے والے بھی شدید مشکل کا شکار ہوتے ہیں اور مریض ایمبولنس میں موت کے مزید قریب جارہے ہوتے ہیں جب کہ کورونا کی وجہ سے پہلے ہی ایک مشکل صورت حال ہے، ایسے میں ٹریفک کاجام ہونا لوگوں کی مزید مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ کراچی کے شہری پہلے ہی روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی وجہ سے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہے جس کی وجہ سے سڑکوں پر ذاتی گاڑیوں کا ازدحام ہے۔ شہر میں نہ گرین بس کا منصوبہ مکمل ہوا، اور نہ سرکلر ریلوے کے کام کو آگے بڑھایا گیا ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم میں پہلا ٹیسٹ 26 فروری 1955ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا تھا اس وقت 1950ء کے وسط میں یہاں کی آبادی دس لاکھ کے قریب تھی اور اب تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ پہلے اس کے اطراف آبادی نہیں تھی پھر جب گلشن اقبال اور گلستان جوہر آباد اور یونیورسٹی روڈ اور اطراف کے علاقے گنجان ہو گئے تو نیشنل اسٹیڈیم خود بخود شہر کے مرکز میں آ گیا ہے جس کی وجہ سے اب جب بھی کوئی میچ ہوگا تو کراچی کے شہریوں کو اس صورت حال کا سامنا رہے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر شہر میں امن قائم ہوگیا ہے تو بغیر تماشائی کے میچ میں سڑکیں بند کرنے کا کیا جواز ہے؟ کراچی اور پاکستان میں کرکٹ کی سرگرمی کا شروع ہونا خوش آئند ہے لیکن وہ عوام کو تکلیف دے کر نہیں بلکہ اس کو مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہیے۔