سنکیانگ: ترک نژاد چینی مسلمانوں کی داستان الم – مسعود ابدالی 

736

امریکی پارلیمان کے ایگزیکٹو کمیشن برائے چین (CECC) نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ (مقامی تلفظ شنجاک) سے ملنے والے نئے شواہد کی بناپر ترک نژاد چینی مسلمانوں یا اویغوروں (Uighurs) کی نسل کُشی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ جب 20 سال پہلے سابق صدر بش نے بیجنگ سے آزاد تجارت کا معاہدہ کیا، اُس وقت امریکی پارلیمان نے چین میں مذہبی اقلیتوں سے بدسلوکی اور امتیازی قوانین یا قوانین کے متعصبانہ استعمال پر نظر رکھنے کے لیے CECCتشکیل دیا تھا۔ کمیشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات کا اختیار دیا گیا ہے۔ کمیشن اپنے ذرائع کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مدد سے رپورٹ مرتب کرکے امریکی وزارتِ خارجہ، خزانہ اور بین الاقوامی تجارت کے شعبہ جات کو بروقت مطلع کرتا ہے۔ ہر سال ایک تفصیلی سالانہ رپورٹ بھی امریکی کانگریس کو فراہم کی جاتی ہے۔ امریکی وزارتِ تجارت، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ محنت کے ایک ایک سینئر رکن کے علاوہ امریکی ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کے9 ارکان اور 9سینیٹرز اس ادارے کا حصہ ہیں۔ اِس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے جم مگ گورن CECCکے سربراہ اور ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر مارکو روبیو ان کی نیابت کررہے ہیں۔

جمعرات (14 جنوری) کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنکیانگ کے اویغور باشندوں کو ہراساں کرنے، قید وبند اور بہیمانہ تشدد کے جو نئے شواہد ملے ہیں وہ انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کُشی کی تعریف میں آتے ہیں۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ اویغور مسلمان بیگار کیمپوں میں بند ہیں جنھیں چین فنی تربیت کے ادارے قرار دیتا ہے۔ کمیشن کے سربراہ جم مگ گورن نے کہا کہ انسانی حقوق کی ایسی خلاف وزریوں کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی، اور اسے سن کی دل دہل جاتا ہے۔ جناب مگ گورن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اویغور عوام سے یکجہتی اور ان کی پشت پناہی کے لیے عملی قدم اٹھانا چاہیے۔

اویغور ترکی النسل مسلمان ہیں جو چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں آباد ہیں۔ لسانی و مذہبی تنوع کی بنا پر سنکیانگ اویغور خودمختار علاقہ یا Xinjiang Uyghur Autonomous Region (XUAR)کہلاتا ہے۔ رقبے کے اعتبار سے یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ سی پیک (CPEC) کے تحت شاہراہِ قراقرم کا آغاز سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی سے ہوتا ہے۔ اڑمچی سے درہ خنجراب تک اس کا نام شاہراہِ گنسو یا G-314 ہے۔ سنکیانگ کی کُل آبادی سوا دوکروڑ کے لگ بھگ ہے، جس کا 45 فیصد اویغوروں پر مشتمل ہے۔ یہاں نعمتیں بخشنے میں قدرت نے حد درجہ فیاضی سے کام لیا ہے۔ سنکیانگ کا بڑا حصہ غیر آباد صحرا پر مشتمل ہے جس کی تہہ میں تیل و گیس کے چشمے ابل رہے ہیں۔ ارضیات کے طلبہ نے ٹیرِم میدان یا Tarim Basin کا نام ضرور سنا ہوگا۔ تیل وگیس کا یہ عظیم میدان سنکیانگ کا حصہ ہے۔ اویغور زبان میں ٹیرم کو التی شہر کہا جاتا ہے، کہ یہ قریب قریب آباد 6 شہروں کا مجموعہ ہے۔ اویغور زبان میں چھے کو التی کہتے ہیں۔ مزے کی بات کہ جہاں سنکیانگ کا بڑا حصہ گرم و خشک ہے وہیں کچھ علاقوں میں درجہ حرارت منفی 4 بھی رہتا ہے۔ ایک طرف ہمارے رب نے اہلِ سنکیانگ کو تیل و گیس کی دولت بخشی ہے، تو دوسری طرف اس زرخیز سرزمین کا ساڑھے چھے لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ زیر کاشت ہے۔ سنکیانگ کپاس کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ اور چین کی 84 فیصد کپاس سنکیانگ سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گندم، مکئی اور چاول کی فصل بھی بہت عمدہ ہے۔ عجیب اتفاق کہ ساری خوشحالی سنکیانگ کے شمال اور مغربی علاقے میں ہے جہاں اویغور آباد ہیں، جبکہ چینی ہن کے علاقے انتہائی پسماندہ ہیں۔

معاشی خوشحالی کے ساتھ اویغور تعلیمی میدان میں بھی آگے ہیں۔ ارضیات، انجینئرنگ اور زرعی تحقیق کے اویغور ادارے سارے چین میں انتہائی موقر سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ کی تیل کمپنیوں میں درجنوں اویغور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اویغور زرعی ماہرین سے چین کے دوسرے صوبے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ چین کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں سنکیانگ زبان و تہذیب کے حوالے سے بہت متنوع ہے۔ اکثر لوگ چینی کے علاوہ ترکی، قازق، فارسی اور روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ 2012ء میں جب افغانستان کے شمالی علاقوں میں تیل و گیس کی تلاش کا کام نئے سرے سے شروع ہوا تو اُس وقت ہمارا کابل اور شبرغن جانا ہوا، جہاں چین کی سرکاری تیل کمپنی CNPCکو تلاش کا ٹھیکہ ملا تھا۔ افغانستان میں تیل و گیس کی تلاش کا زیادہ تر کام قبضے کے دوران روسیوں نے کیا ہے، اس لیے افغانستان میں تیل و گیس کے میدان کی زبان روسی ہے۔ جامعہ کابل میں شعبہ ارضیات کے اکثر سینئر اساتذہ روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور ارضیات کے لیکچر فارسی، پشتو، روسی اور انگریزی کا ملغوبہ ہوتے ہیں۔ ہماری ملاقات کے دوران CNPCکے منیجر اور دوسرے افسران روسی ہی بول رہے تھے، اور ایک پاکستانی مترجم انتہائی مہارت سے فارسی اور انگریزی میں منیجر صاحب کی گفتگو کا ترجمہ کررہے تھے۔ بات چیت کے بعد جب کھانے کا دور چلا تو معلوم ہوا کہ موصوف اڑمچی سے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سنکیانگ میں تیل و گیس کے میدانوں کی سرکاری زبان روسی ہے۔

بدقسمتی سے سنکیانگ کے اویغور علاقوں کی خوشحالی ہی نے بیچاروں کو یہ دن دکھائے ہیں۔ صوبے میں آباد ہن نسل کے چینی اویغوروں کی خوشحالی سے حسد میں مبتلا ہیں اور ماضی میں کئی بار فسادات ہوئے۔ کہنے کو تو سنکیانگ خودمختار علاقہ ہے لیکن نظم و نسق، عدالت، پولیس اور سب سے بڑھ کر سراغ رساں ادارے چینیوں کے قابو میں ہیں۔ وفاقی حکومت نے سرکاری سرپرستی میں ہن چینیوں کو شمال مغرب کے اویغور علاقوں میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اویغوروں کو شروع میں اس بات پر اعتراض نہ تھا کہ اقتصادی ترقی کے لیے اضافی افرادی قوت کی ضرورت تھی، اور ہن آبادکاروں کی شکل میں تیل کے میدانوں اور کپاس کی کاشت کے لیے مطلوبہ کارکن میسر آگئے۔ کچھ عرصے بعد تیزی سے بڑھتی ہن آبادی پر مقامی اویغوروں نے تشویش کا اظہار کیا اور مقامی چینی کمیونسٹ پارٹی کو بھی شکایت کی گئی، لیکن وفاقی حکومت کا مؤقف تھا کہ دیہی علاقوں سے غریب ہن افراد کی نقل مکانی کا مقصد ان غریبوں کے لیے روزگار کے مواقع کو بہتر بنانا ہے۔

کچھ ہی عرصے بعد ہن اور اویغوروں کے درمیان چپقلش شروع ہوگئی۔ ہن کارکنوں کا اعتراض تھا کہ اویغوروں کی گفتگو میں ترکی اور عربی کی آمیزش ہے جس کی وجہ سے انھیں بات چیت میں مشکل ہوتی ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ صبح سویرے لاوڈ اسپیکر پر فجر کی اذان سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔

اسی دوران کئی ہن لڑکیوں نے اویغوروں سے شادی کرلی۔ چینیوں کے زردی مائل چہروں کے مقابلے میں ترکی النسل اویغور نسبتًا سرخ و سفید ہونے کے ساتھ، ستواں ناک کی وجہ سے ہن خواتین کو زیادہ وجیہ محسوس ہوتے ہیں۔ ایک اور بڑی شکایت مسلمانوں کا دعوتی انداز ہے جس کی وجہ سے بہت سی خواتین مسلمان ہوگئیں۔ سری لنکا اور ہندوستان کے مسلمان بھی اسی وجہ سے آزمائش میں ہیں، بلکہ اس کے لیے اب ”جہادی عشق“ یا Love Jehadکی پھبتی کسی جارہی ہے۔

زبانی چھیڑ چھاڑ ہلکی پھلکی مارپیٹ سے بڑھ کر مسلح تصادم کی شکل اختیار کرگئی۔ کئی جگہ اتشیں اسلحہ بھی استعمال ہوا۔ دورِ حاضر میںانسداد دہشت گردی کے نام پر سب کچھ جائز ہے، چنانچہ 2014ء کے وسط میں چینی فوج نے انسدادِ دہشت گردی کا علَم اٹھاکر اویغوروں کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا۔ اسرائیلی فوج کی طرح ”دہشت گردوں“ کے مکانوں بلکہ پوری کی پوری آبادیوں کو منہدم کردیا گیا۔ بعد میں خالی کرائی گئی ان زمینوں پر ہن بستیاں بس گئیں۔ لاتعداد نوجوان گرفتار کرکے بیگار کیمپ نما عقوبت کدوں میں پہنچا دیے گئے۔

یہاں چینیوں نے جدت اختیار کی اور جیل خانوں کو ہنر سکھانے والے پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے یا ”ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز“ کا نام دیا گیا۔ چینی وزارتِ ثقافت نے بہت فخر سے کہا کہ ہم دوسرے ممالک کی طرح شدت پسندوں کو قتل یا اُن کے خلاف طاقت استعمال نہیں کریں گے بلکہ پیارو محبت اور تعلیم کے ذریعے بیرونی دشمنوں کے جھانسے میں آنے والے ان ”معصوم بچوں“ کی منفی سوچ کو تبدیل کیا جائے گا۔ تاہم حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں صدر ژی پنگ سے حلفِ وفاداری کے ساتھ یہاں نظربند افراد کو اپنے عقیدے پر تنقید اور اسے ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دس لاکھ سے زیادہ اویغور افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت نظربند لوگوں کی تعداد کے بارے میں دس لاکھ کے عدد کو مبالغہ آمیز قرار دے رہی ہے، لیکن انسانی حقوق سے متعلق ایک اجلاس میں چینی سفیر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے گمراہ ہوجانے والے اویغوروں کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے قابل بنایا جارہا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت دنیا کے 18 مسلم ممالک نے چین کے اس مؤقف کی بھرپور حمایت اور ذہنی تربیت کے ذریعے شدت پسندی کے علاج کو قابلِ تحسین قراردیا ہے۔

اسلام کے نام پر شدت پسندی اور اس کی آڑ میں علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اب باقاعدہ قانون سازی کی جارہی ہے۔ اس قانون کے مطابق حلال چیزوں کے تصور کو پھیلانا، سرکاری ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے اور بچوں کو سرکاری تعلیم دلوانے سے انکار قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہوگا جس کے مرتکب افراد کو اصلاح اور ذہنی تربیت کے لیے ”ووکیشنل مراکز“ منتقل کردیا جائے گا۔ ان مراکز پر Mandarin(چینی زبان) کے علاوہ چینی ثقافت کی تعلیم دی جائے گی۔ انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے ہیومن رائٹس واچ (HRW)کی ڈائریکٹر برائے چین محترمہ صوفی رچرڈسن کا کہنا ہے کہ ظلم و جبر کے ایسے ہتھکنڈے جو انسان سے اس کے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کا حق چھین لیں انھیں قانون نہیں کہا جاسکتا۔ قانون کے ابتدائیہ میں ایک مثال دی گئی ہے کہ دکانوں میں ٹوتھ پیسٹ خریدتے وقت اس کے حلال وحرام اجزا پر گفتگو سے عوام کی ذہنیت متاثر ہورہی ہے اور نوجوان مذہبی شدت پسندی کا شکار ہورہے ہیں۔ چینی حکومت حلال و حرام کی بحث کو ملک کی سیکولر شناخت کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ ماہ کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی میں لوگوں سے حلال وحرام کی بحث ختم کرنے کا وعدہ لیا۔ نئے قانون کے تحت اسکولوں میں مسلم طلبہ کو گھر سے کھانا لانے کی اجازت نہیں، اور ان کے لیے انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیا جانے والا کھانا نوشِ جان کرنا ضروری ہے، اور لحم خنزیر کی صورت میں وہ کھانے سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر کھانے کی تقسیم سے ملک کی قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہے۔ رمضان میں بھی مسلمان طلبہ کے لیے اسکول میں لنچ کرنا ضروری ہے۔ نئے قانون کے تحت خواتین کو اسکارف اوڑھنے کی اجازت نہیں، کہ اس سے معاشرے میں ثقافتی دورنگی پیدا ہوتی ہے۔۔۔ اور تو اور عوامی مقامات اور تقریبات میں تہنیت کے لیے سلام کے بجائے چینی زبان میں نی ہائو (Ni Hao)کہنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس جبر کو ثقافتی تطہیر و تجدید کا نام دیا گیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق ووکیشنل سینٹر سے فرار ہوکر قازقستان پہنچنے والے ایک پروفیسر نے عدالت کے روبرو بیانِ حلفی میں کہا کہ وہ سیاسی تربیت کا کیمپ نہیں بلکہ پہاڑوں میں بنی ایک جیل تھی۔ وہ اسی حد تک ایک تربیت گاہ ہے کہ ہر صبح قیدیوں کو ایک ترانہ سکھایا جاتا ہے جس کا پہلا مصرع کچھ اس طرح ہے کہ ”کمیونسٹ پارٹی کے بغیر چین کا وجود ہی نہ ہوگا“۔ دوسرے دن جو طالب عالم ”آموختہ“ نہ سنا سکے اُس کو ناشتا نہیں ملتا۔ ایک اور سابق قیدی نے کہا کہ وہاں کلیدی سبق بس ایک ہی ہے، یعنی ”چینی کمیونسٹ پارٹی کی عظمت، اویغور ثقافت کی پسماندگی اور چینی ثقافت کی جدت“

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ اویغور ڈر کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ”ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں، ہر موڑ پہ اک لائسنس طلب“… یعنی ہرطرف سرکاری جاسوس جھانکتے اور سونگھتے پھر رہے ہیں۔ جن مردوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُن کے گھروں کی حفاظت کے لیے فوجی تعینات کیے گئے ہیں جو سادہ کپڑوں میں گھروں کے اندر رہتے ہیں تاکہ بچوں پر خوف نہ طاری ہو۔ غیر مردوں کے گھر کے اندر رہنے سے خواتینِ خانہ اور ان کی بچیاں جس ذہنی اذیت و کراہیت سے دوچار ہیں اس کا تصور بھی محال ہے۔

جبر و پابندی کے ساتھ زیرحراست قیدیوں سے جبری مشقت بھی لی جارہی ہے۔ ہزاروں اویغور قیدی کپاس کی چُنائی کرتے ہیں۔ یہ دراصل ان ہی کے کھیت ہیں جن پر حکومت نے قبضہ کرلیا، اور یہ بدنصیب اپنے ہی مقبوضہ کھیتوں سے کپاس چُن کر سرکار کے حوالے کررہے ہیں۔ تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے کے لیے ہزاروں قیدی مزدور کی حیثیت سے دوسرے صوبوں کو بھیج دیے گئے ہیں، اور یہ قیدی پارچہ جات یعنی ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں بھی بیگار کررہے ہیں۔

اویغور کبھی بھی شدت پسند نہیں رہے۔ بنیادی طور پر یہ کاشت کار، کارخانہ دار اور تیل و گیس کی صنعت سے وابستہ مہندسین و ماہرین ہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے چین کا خوشحال ترین علاقہ تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کے بانی مائوزے تنگ نے سنکیانگ کی منفرد ثقافتی شناخت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے 1955ء میں آزاد و خودمختار علاقے کی حیثیت دی تھی۔ یہاں ہن چینی بھی خوش و خرم رہ رہے تھے اور 2010ء سے پہلے کسی قسم کی لسانی یا مذہبی کشیدگی کا نام نشان تک نہ تھا۔

معلوم نہیں ترمیم پسند کمیونسٹ پارٹی پر یکسانیت کا خبط کیوں اور کیسے سوار ہوگیا! ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک بالکل یک رنگا کیسے ہوسکتا ہے؟ مغربی یورپ کے چھوٹے سے ملک لکسمبرگ میں بھی کہ جس کی آبادی چین کے ایک بڑے محلے سے بھی کم ہے، پانچ سے زیادہ ثقافتی اکائیاں اور سات مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں۔ مساجد، گرجے، کنیسہ، مندر اور گوردوارے سب شاد وآباد، اور حلال، کوشر، ویجیٹیرین ہر نوع کے ریستوران اپنے شائقین سے بھرے ہوئے ہیں۔ شاہراہوں پر مقامی زبان کے ساتھ فرانسیسی، پرتگالی، انگریزی اور جرمن زبان کے کتبے اور نشانات ملک کی شان بڑھا رہے ہیں۔

چین میں جنم لینے والا یہ انسانی المیہ تاریخِ عالم کا پہلا واقعہ نہیں۔ چند برس پہلے برما کو اراکان مسلمانوں سے ”پاک“ کردیا گیا۔ لاکھوں تہہ تیغ ہوگئے۔ جو سخت جان تھے وہ جانوروں کی طرح بنگلہ دیش کی طرف ہانک دیے گئے کہ یہ ”خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا“۔ ایسا ہی کچھ فلسطین میں بھی ہورہا ہے۔

سارے مظالم کے دفاع میں چین کا سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ ”کچھ اقدامات تکلیف دہ ضرور ہیں، لیکن ان سخت اقدامات ہی کی وجہ سے یہ خطہ ”شام“ یا ”لیبیا“ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ ستم ظریفی کہ بہت سے مسلم ممالک کے فوجی حکمراں اور پس پردہ ڈور ہلانے والی مقتدرہ بھی جبر کے دفاع میں یہی دلیل دے رہی ہے۔