امریکا کا طالبان سے امن معاہدے پر نظرثانی کا فیصلہ

517

امریکی مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے افغان ہم منصب حمداللہ محب سے ٹیلی فونک رابطے میں کہنا تھا کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے طالبان سے کیے گئے معاہدہ کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکی مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے افغان ہم منصب حمداللہ محب سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، جس میں امریک مشیر نے کہا کہ افغان امن معاہدہ پر نظر ثانی کریں گے اور افغان طالبان سے کئے گئے معاہدہ کا جائزہ لیں گے۔

جیک سلیوان نے کہا کہ طالبان کے شدت پسندوں سے رابطے منقطع کرنے اور افغانستان میں تشدد ختم کرنے کے وعدے کو بھی دیکھا جائے گا۔

واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی تقریب میں افغان طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر اور امریکا کی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے معاہدے پر دستخط کیے۔ 4 صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے.

(1) طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

(2) افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائیگا۔

(3) طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔

(4) انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے 2 حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے2 حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔

معاہدے کی تفصیلات

امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکیدار، شہری، نجی سیکورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ تمام امریکی اور اتحادی 5 ملٹری بیس سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے 9 ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائیگی۔

انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظر ثانی شروع کردے گا اور 27 اگست 2020 ء تک پابندی ختم کر دیگا۔ انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے 29 مئی 2020 ء تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خود مختاری کے خلاف بیان بازی سے گریزاں رہیں گے۔

طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔ طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ اور جنگجوؤں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔٭ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ نائن الیون واقعے کے چند ہفتے بعد امریکا نے ستمبر 2001 ء میں افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ اب تک اس جنگ میں 2400 سے زائد امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریباً 14 ہزار کے قریب امریکی فوجی اور 39 ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کے 17 ہزار کے قریب فوجی موجود ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد افغان جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔