شہید جمیل احمد جمالی مرحوم

508

1970 کی وہ سرد رات جب ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی بادل چھائے ہوئے تھے اور گھارو کے قرب و جوار میں ایک خاموش اندھیری رات چھائی ہوئی تھی رات کے گیارہ بج چکے تھے کہ میں ایک لوڈنگ ٹرک کے ذریعے گھارو پہنچا۔ گھارو ان دنوں میں قومی شاہرہ پر کراچی سے تقریباً 40 میل پر واقع ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ مین روڈ پر دونوں طرف کچی پکی دکانیں اور ہوٹل وغیرہ واقع تھے اور ایک دو مسافر خانے بھی تھے جہاں مسافر کچھ دیر کے لیے رکتے اور شکم پوری کرکے سستانے کے بعد اپنی اگلی منزلوں کو روانہ ہو جاتے تھے انہیں میں کچھ دکانیں اور ایک مسافر خانہ جو گھارو مسافر خانے اور گھارو ہوٹل کے نام سے موسوم تھا۔ ہمارے دولہا بھائی کی ملکیت تھا۔ دولہا بھائی ہمیں اسی مسافر خانے پر بیٹھے ہوئے مل گئے سلام دعا اور خیر خیریت کے بعد انہوں نے ہم سے کہا کہ منے میان تم گھر جاکر آرام کرو میں بھی کچھ دیر کے بعد آتا ہوں۔ وہ ہمیشہ مجھے منے میاں ہی کہا کرتے تھے اور ہم نے بھی انہیں ہمیشہ دولہا بھائی کہا۔ پھر ہم وہاں سے گھارو کی رہائشی بستی میں اپنی بہن کے گھر پہنچ گئے۔
ہمیں یوں اچانک دیکھ کر بہن اور بچّے بہت خوش ہوئے تھوڑی دیر بعد دولہا بھائی بھی گھر تشریف لے آئے کھانا کھانے اور کچھ گپ شپ کے بعد دولہا بھائی نے کہا کہ میں پٹرول پمپ جارہاہوں اور وہیں رات گزاروں گا۔ دولہا بھائی کا برما شیل کا ایک پٹرول پمپ بھی مین شاہراہ پر موجود تھا جو ان کے بڑے صاحبزادے افتخار احمد جاوید کے نام سے موسوم تھا اور جاوید برادرز کے نام سے قائم تھا۔ اکثر وہ اس پٹرول پمپ پر رات بھی گزارتے تھے۔ ابھی ان کو گئے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ رات کے تقریباً ڈھائی بجے ہمیں ان کی شہادت کی اطلاع ملی چند ڈاکوؤں نے ان کو پہلے خنجروں سے مارنے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے بارہ بور کی رائفل سے ان کے سینے پر عین دل کے اوپر گولی چلا دی جس کی وجہ سے ان کی فوری شہادت واقع ہوگئی اور قاتل اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے اطلاع ملنے پر جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ٹھٹھہ لے جائی چکی تھی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح قرب وجوار کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی پھیل چکی تھی۔ آہستہ آہستہ قتل کے حقائق اور محرکات بھی سامنے آتے گئے۔ اجرتی قاتلوں نے اس کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی تھی مگر چونکہ کوئی بھی شے یا رقم لوٹی نہ گئی تھی۔ لہٰذا سب کا یہی خیال تھا کہ یہ براہ راست قتل کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ دولہا بھائی اس علاقے کی انتہائی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ اور سیاسی طور پر بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بہت متحرک تھے۔ انہیں ستر کے الیکشن میں ٹھٹھہ کی نشست پر مسلم لیگ کا ٹکٹ ملنے کے قوی امکانات تھے۔ اس سے پہلے وہ سعودآباد کراچی سے بی ڈی ممبر بھی منتخب ہو چکے تھے۔ ان کا ایک گھر سعودآباد میں بھی ہوتا تھا۔
دولہا بھائی 47ء ہی میں پاکستان آگئے تھے جہاں انہوں نے دھابے جی پر قائم ہرجینا سالٹ کمپنی میں بحیثیت مینیجر ملازمت کر لی تھی۔ ساتھ ہی کلیم میں کچھ زمین دوکانیں گھر وغیرہ گھارو اور قرب وجوار میں مل گئی تھیں۔ انہوں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ گھارو مسافر خانہ اور گھارو ہوٹل کے علاوہ برماشیل کے پٹرول پمپ کا کاروبار بھی شروع کردیا وہ نہ صرف قابلیت اور اہلیت رکھتے تھے بلکہ محنتی اور ایماندار بھی تھے۔ لہٰذا ان کا کاروبار بھی ترقی کرتا گیا۔ انہوں نے خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے رکھا تھا۔ بے شمار لوگوں کی مدد اس طرح کرتے تھے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی تھی۔ یہ بات خود ہم گھر والوں پر بھی ان کی شہادت پر کھلی جب بہت سارے گھرانے روتے دھوتے جنازے میں آئے اور کہا کہ اب ہماری مدد اور داد رسی کون کرے گا۔ یہاں تک کہ ان کی نماز جنازہ کے بعد گھارو اور قرب وجوار کے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی تدفین گھارو ہی میں کی جائے اور وہ سائیں کا ہر سال عرس کریں گے۔ مگر ہم لوگ اس پر راضی نہ ہوئے اور کافی بحث مباحثے کے بعد طوعاً و کرہاً ان لوگوں نے ہمیں میت کراچی لے جانے کی اجازت دے دی۔ جہاں پاپوش نگر ناظم آباد کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ اس کالم کے سلسلے میں ہم نے ان کے بڑے بیٹے افتخار احمد جاوید سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی اپنی یاداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے جو کہانی سنائی وہ ان ہی کی زبانی پیش خدمت ہے۔
جمیل احمد 14 اگست 1924 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد عبد الحکیم ریلوے میں ملازم تھے جب ان کی عمر ڈھائی سال کی تھی تو والد کا انتقال ہوگیا لہٰذا ان کی پرورش ان کے چچا نے کی، 1939 میں میٹرک پاس کیا اور ریاضی میں 100 فی صد نمبر حاصل کیے اس کے بعد علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا مگر معاشی وجوہ کی بناء پر تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور چچا کے کاروبار میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہاتھ بٹانے لگے اس دوران تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب قائد اعظم علی گڑھ تشریف لائے وہ ریلوے اسٹیشن پر استقبال کرنے سے لیکر قائد کے جلسے تک منتظمین میں شامل رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے کراچی پہنچ کر طبیعت خراب ہوگئی اور ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ کراچی کیونکہ سمندر کے کنارے واقع ہے اس لیے یہاں کی آب وہوا مناسب نہیں ہے لہٰذا وہ گھارو منتقل ہوگئے۔ یہاں انہوں نے ہرجینا سالٹ ورکس میں ملازمت اختیار کی اور اس کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ ہر چھٹی والے دن کراچی آکر مہاجر کیمپ جاتے اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرتے نہ صرف یہ بلکہ متعدد خاندانوں کو گھارو میں لاکر آباد بھی کیا۔ 1949 میں ضلع ٹھٹھہ سے مسلم لیگ کی کونسل کے لیے نامزد ہوئے واضع رہے کہ اس زمانے میں ضلع ٹھٹھہ سے صرف دو رکن منتخب ہوتے تھے اس کے بعد آپ گھارو ٹاؤن کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ قابل ذکر پہلو یہ ہے کے گھارو کے نئے مکین تو ان کے سپورٹر تھے ہی بلکہ وہاں کے پرانے رہائشی سندھی حضرات بھی آپ کے سپورٹر تھے۔ ان کو سندھی زبان پر مکمل عبور تھا ایک دفعہ گھارو میں زمین کے تنازع پر لسانی گروپوں میں جھگڑا ہوگیا جسے انہوں نے اپنی دانش مندی سے ختم کروایا۔
سکھر میں مسلم لیگ کونسل کا اجلاس سندھ کے وزیر اعلیٰ عبدالستار پیرزادہ کی زیر صدارت ہورہا تھا وہاں جمالی قبیلے کے سردار میر جعفر خان جمالی بھی موجود تھے انہوں نے وہاں ان کو جمالی قبیلے میں شرکت کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی اور پھر وہ جمالی قبیلے کی سرگرمیوں آخری وقت تک شرکت کرتے رہے۔ یوں ان کے نام کے ساتھ جمالی کا اضافہ ہوگیا جو تاحیات قائم رہا اور بیٹوں کے ناموں میں بھی منتقل ہوا اور اسی نام کے ساتھ شہرت پائی۔
گھارو ٹائون کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے کئی ترقیاتی کام کیے اکثر بارشوں میں لوگ نقل مکانی کرکے گھارو آجاتے جہاں انہیں مفت اناج وغیرہ فراہم کیا جاتا۔ 1956 میں آپ ملازمت کے سلسلے ہی میں سعود آباد کراچی منتقل ہوگئے لیکن گھارو کی بستی کو بھی نہیں چھوڑا۔ 1958 کے مارشل لا کے بعد جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے انتخابات کروائے تو سعودآباد سے رکن منتخب ہوئے۔ 1962 کے آئین کی منظوری کے بعد ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ قائم کی تو اس میں شامل ہونے کے بجائے مخالف دھڑے کونسل مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور آخری وقت تک مسلم لیگ کونسل سے وابستگی رکھی۔ یہاں تک کہ کونسل مسلم لیگ کا ڈھاکا سابقہ مشرقی پاکستان میں جو آخری اجلاس ہوا تھا اس میں بھی شرکت کی۔ اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ لوگوں کی ہمیشہ بے لوث خدمت کی اور کبھی اپنی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
ہمیشہ آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ 1964 میں دوبارہ گھارو منتقل ہوگئے اور جب ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اگرچہ بنیادی جمہوریت کے رکن نہیں تھے لیکن کونسل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ٹھٹھہ کے ڈپٹی کمشنر کو اوپر سے احکامات ملے کہ جمیل احمد جمالی کو گرفتار کرلیا جائے۔ کیونکہ ایس ایچ او ان کو اچھی طرح جانتا تھا لہٰذا اس نے خود گھر آکر اطلاح دی کے احتیاط کریں اور اوپر لکھ کر بھیج دیا کے وہ گھر پر نہیں ملے۔ جب ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے گھارو میں اپنے خرچ پر اصغر خان کا جلسہ منعقد کروایا اسی طرح جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے نکلے تو نہ صرف ان کا دھابیجی ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا بلکہ وہاں ان کی تقریر کے لیے انتظامات بھی کیے۔ آپ کا انتقال 29 اگست 1970 کو ہوا۔
وہ بڑے شریف النفس با اخلاق اور خدمت خلق سے سرشار تھے صدقات اور نیکی کے کام اس طرح کرتے تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ بہت ہی وضع دار شخصیت تھی ہمیشہ شیروانی اور جناح کیپ زیب تن کرتے تھے کبھی بھی اس کے علاوہ کسی اور لباس میں انہیں نہیں دیکھا گیا۔ جن لوگوں نے اور جن قوتوں نے ان کا قتل کرایا تھا بالآخر جلد یا بدیر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جمالی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین۔