قرض تمام حدیں پار کر گئے ، مہنگائی نے زندگی اجیرن کردی ، حسین محنتی

208

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی سندھ کے امیر وسابق ایم این اے محمد حسین محنتی نے ملکی قرضوں کی بلند ہوتی شرح پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویسے تو ہر نئے آنے والے حکمران نے اپنی عیاشیوں کے لیے بڑے پیمانے پر ملکی اور غیرملکی مالیاتی اداروں سے کڑی شرائط پر قرضے وصول کیے لیکن گزشتہ 2،3 برس میں ملکی قرضوں کی سطح تمام حدود پار کرچکی ہے صرف گزشتہ ایک سال کے
دوران سرکاری قرضے 3.7کھرب روپے سے بڑھ کر 35.8کھرب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے جو نومبر 2019ء میں 32.1کھرب روپے تھے، نومبر 2020ء میں بڑھ کر 35.8کھرب روپے ہو گئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اِس رقم میں آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض شامل نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں مزید کہا کہ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی سرکاری قرض کتنا زیادہ ہو گا۔ملکی قرض میں بے تحاشہ اضافے، ڈالرکی قیمت میں اضافے اور روپے کی بے قدری کی وجہ سے آج ملک میں مہنگائی عروج پر اورعوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے، براڈ شیٹ مسئلے پر بنا کچھ حاصل کیے حکومت نے 29ملین ادا کرکے عوام کی کون سی خدمت کی ہے؟، واضح رہے کہ 2018ء میں وفاقی حکومت پر 24.2کھرب روپے کا قرض واجب الادا تھا جس میں یومیہ 13.2بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق وفاقی حکومت کے طویل مدتی قرضوں میں زیادہ اضافہ ہواہے جو 16.6کھرب سے بڑھ کر 19.1کھرب روپے ہو گئے جبکہ ایک سال کے دوران مقامی قرض 7.2کھرب سے 24 اعشاریہ ایک کھرب تک پہنچ چکا ہے۔ قرضوں میں ہونے والا لامحدود اضافہ کمزور ملکی معیشت کے لیے کسی بھی طرح سود مند نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اِن قرضوں کا بیشتر حصہ پچھلے قرضوں کے صرف سود کی ادائیگی میں ہی خرچ ہو جاتا ہے ، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی حکومتیں قرض لیتی ہیں لیکن اس کے مصارف زیادہ تر ترقیاتی و عوامی فلاح سے متعلق ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں لیے گئے بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بڑا حصہ حکومتی وزیروں مشیروں، بیوروکریٹس کی عیاشیوں میں خرچ ہوجاتا ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔اس نازک صورتحال کے پیش نظر حکومتی معاشی ماہرین کو غور کرکے ایسی معاشی پالیسیاں بنانی چاہئیں جن میں کم سے کم قرضوں کے حصول اور ملکی وسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے ملکی صنعتوں،زراعت اور دیگر وسائل کو فروغ دیا جائے تاکہ معیشت عارضی سہاروں پر نہیں بلکہ مضبوط بنیاد پر استوار ہو اور عوام کو بھی کچھ ریلیف مل سکے تاکہ عام آدمی کی زندگی میں کچھ بہتری کی امید پیداہوسکے۔