خوشگوار اجتماعی ماحول

266

تحریک اپنے نصب العین کے حصول کے لیے میدان عمل کی ہمہ جہتی اسی لیے رکھتی ہے کہ یہ اس کے مقصد کا تقاضا بھی ہے اور ہر وابستہ فرد کے مزاج، قوت استعداد و عمل اور اس کی دلچسپی اور پسند سے ہم آہنگی کا مظہر بھی ہے۔
تحریک کے اجتماعی ماحول کی خوش گواری، ہر فرد کے انفرادی حالت میں مطمئن رہنے سے ممکن ہے، جس طرح جسم کا صحت مند رہنا سارے جسم کے اعضا کے صحت مند ہونے سے ممکن ہے۔ کسی بھی فرد کا یہ اطمینان، ہر روز اس کی صبح کی حالت سے ہی واضح ہوجاتا ہے۔ جس انداز سے صبح کی جاتی ہے اسی سے پتا چلتا ہے کہ سارا دن کن مصروفیات و مشغولیات میں گزرنے والا ہے۔ لہذا فردکے لیے ہر دن، ایک نیا دن ہونا چاہیے، وہ بھی نیا، اس کے عزائم وحوصلے بھی نئے۔ اس کا میدان کار بھی نیا اور اس کی قوت عمل بھی نئی۔ رب کریم کا ارشاد ’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اْس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔ اسی نئی صبح کا پیشگی منصوبہ ہے تاکہ ہر فرد دیکھے کہ وہ کل کے لیے کیا سامان اکٹھا کرسکتا ہے؟
اس پہلو سے غور کیجیے تو محسوس ہوگا کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان خوشگوار تعلقات کی ایک بنیادی وجہ ان کی اپنی انفرادی واجتماعی سرگرمیوں کا حسین امتزاج تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیاں غزوات ومہمات، دعوت وارشاد، وعظ و نصیحت کی اجتماعی کوششوں کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی صالحیت وصلاحیت کی بنا پرایک اور ایک سے زائد میدان کار کے بڑے ہی سرکردہ شہہ سوار تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے صحابہ کرامؓ کو جن پیارے القاب سے نوازا تھا، چاہے وہ صدیق ہو کہ غنی، اسداللہ ہو کہ سیف اللہ، ان تمام کے لیے ان کا اجتماعیت نواز انفرادی کردار بنیاد رہا۔
اجتماعیت سے وابستگی جس غایتِ حقیقی کے تحت ہوتی ہے، یعنی رضائے الہی وفلاح آخرت، اس کے حصول کا ایک محسوس طریقہ ہر فرد کے اختیار میں ہونا چاہیے۔ وہ بس یہ دیکھے کہ وہ کس حال میں صبح کررہا ہے اور کس عمل کے ساتھ اس کے دن کا اختتام ہورہا ہے۔ کیا اس کو اجتماعی کاموں کے علاوہ اپنے انفرادی کاموں سے سکون و اطمینان میسر آرہا ہے اور کیا اس کا انفرادی کام، اجتماعی کاز کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بن رہا ہے؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو اجتماعیت سے والہانہ وابستگی کے لیے راہیں ہموار ہیں۔
اجتماعیت سے وابستہ ہر فرد کی تڑپ اس حالت اطمینان کو حاصل کرنے اور ہر سطح کے قائدین کی فکر اس حالت اطمینان کو یقینی بنانے کے لیے ہونی چاہیے۔ رسول اللہؐ اور زیدالخیرؓ کے درمیان ہوئی اس گفتگو سے یہی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ زیدالخیرؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے بتلائیے کہ اس شخص میں اللہ تعالیٰ کی کیا نشانی ہے جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس میں کیا نشانی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا؟ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اے زید! تم نے کس حال میں صبح کی؟ زیدؓ نے فرمایا: اس حال میں صبح کرتا ہوں کہ نیکی اور اس کے کرنے والوں سے مجھے محبت ہوتی ہے اور اگر میں نیک کام کرنے پر قدرت رکھتا ہوں تو اسے جلدکر ڈالتا ہوں اور اگر نیکی کرنے سے رہ جاؤں تو غمگین اور بے قرار ہوجاتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا: یہی اللہ تعالیٰ کی نشانی اس شخص میں ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے اور اگر وہ تمہارے لیے کسی اور چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو تمھیں اس کے لیے تیار کردیتا۔ (ترمذی)
جب کوئی فرد اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کو اپنا معیار بنالیتا ہے تو اس کے نزدیک سوائے سیدنا زیدالخیرؓ کے جیسے سوال کے کوئی اور بات قابل توجہ نہیں رہتی۔ جب ہر فرد، اجتماعی کاز کے لیے اپنے انفرادی تعاون سے دلی خوشی اور اطمینان محسوس کرے تو اس کے لیے اجتماعی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اوراپنے رفقا کے ساتھ گہرا تعلق بنائے رکھنا، اس کے اطمینان قلب کی اصل وجہ بن جاتا ہے۔اور جب ہر وابستہ فرد کے قلبی اطمینان کی ایسی کیفیت ہوجائے تو بشری کمزوریوں کی استثنائی صورت کے سِوا اجتماعیت کے داخلی ماحول کو بنیان مرصوص کے اعلی معیار پر قائم رہنے میں کوئی امر مانع نہیں رہتا۔