مزاح اور خوش طبعی/مزاح کا شرعی حکم

576

شریعت مطہرہ تمام امور میں اعتدال پسند واقع ہوئی ہے، لہٰذا مزاح اور خوش طبعی میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ موقع اور محل کی مناسبت سے کبھی مزاح مباح، بلکہ مستحب ہے۔ تو اس کی کثرت اور اس پر مداومت مذموم قرار دی گئی ہے۔
’’میں نے رسول اللہؐ سے زیادہ کثیر المزاح کسی کو نہیں پایا‘‘۔ (مظاھر حق :5/485)
پھر مزاح میں یہ امر بھی ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ اس سے کسی کو ایذا نہ پہنچے۔ کسی کی دل شکنی نہ ہو، کیوں کہ مزاح کہتے ہی ہیں ایسی دل لگی کو جس میں ایذا رسانی اور دل شکنی نہ ہو: ’’مزاح کسی کے ساتھ بغیر ایذا پہنچائے دل لگی کرنا ہے، اگر یہ ایذا کی حد کو پہنچ جائے تو وہ سخریہ اور ٹھٹھا ہے‘‘۔ (مرقاۃ:8/617) اور سخریہ اور ٹھٹھے سے منع کیا گیا ہے۔
ارشاد باری ہے: ’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ( لہٰذا اس چیز کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے)‘‘۔ (الحجرات)
پھر مزاح کا مبنی برصدق و حق ہونا بھی ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! آپ بھی ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں تو رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میں صرف حق بات کہتا ہوں‘‘۔
یہاں نبی اکرمؐ کے کچھ مزاحی واقعات نقل کیے جاتے ہیں، تاکہ عاشقانِ رسول کو مزاح کا سنت طریقہ معلوم ہوجائے اور متبعین سنت کے لیے یہ فطری جذبہ بھی دیگر متعدد فطری جذبات کی طرح عبادت بن جائے۔
سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسولؐ سے سواری طلب کی تو آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا؟ تو رسول اللہؐ نے فرمایا: کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟‘‘ (مشکوٰۃ)
رسول اللہؐ نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی، سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایا تو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اور اونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپؐ نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی! میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں، مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔
سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے ان سے فرمایا: اے دوکان والے!‘‘ (مشکوٰۃ)
رسول اللہؐ کا انسؓ سے ’’اے دو کان والے‘‘ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طور پر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عُرف میں بھی رائج ہے، مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دو کانوں کے درمیان ہو گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
سیدنا انسؓ نبی اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی۔ وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی، اس نے عرض کیا بوڑھی کے لیے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ نبیؐ نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا، ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے، پس ہم ان کو کنواریاں بنادیں گے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
مزاح ایک فطری جذبہ ہے، انسان سے اس کا صدور مذموم اور قبیح نہیں، بلکہ ممدوح ہے، اس کا صدور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے بھی ہوا ہے، صحابہ کرامؓ سے بھی اور اولیائے کرام سے بھی۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی جلالتِ شان سے کون ناواقف ہے؟ کسی نے آپ کو ایک بہت ہی قیمتی چینی آئینہ ہدیۃً دیا تھا، شیخؒ کبھی کبھی اس میں اپنا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے، اتفاقاً وہ آئینہ خادم کے ہاتھ سے گرکر ٹوٹ گیا، اس کو ڈر ہوا کہ شیخؒ عتاب فرمائیں گے، اس نے ڈرتے ڈرتے شیخؒ سے عرض کیا از قضا آئینہ چینی شکست (قضا وقدر کی وجہ سے وہ چینی آئینہ ٹوٹ گیا)۔ شیخؒ نے یہ سن کر فی البدیہہ فرمایا: خوب شد، اسبابِ خود بینی شکست (اچھا ہوا کہ خود بینی کا ذریعہ اور سبب ٹوٹ گیا)۔
الغرض مزاح ایک سنتِ مستحبہ ہے، جو لوگ اسے اپنے وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں، جب کہ یہ شان نبوت کے خلاف نہیں۔ شانِ صحابیت کے خلاف نہیں۔ شانِ ولایت کے خلاف نہیں۔ تو ہماشما کی شان کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں جملہ امور میں اتباعِ سنت کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ (آمین)