جوبائیڈن کا عرب نہیں عالمی خونیں بہار کی تیاریاں

1056

امریکا کے سابق صدر بارک حسین اوبا ما کے نائب صدر جوبائیڈن کی صدرِ امریکا کی حیثیت سے تقریب حلف برداری سے ق15 اور 16جنوری کی نصف شب ہی سے افریقا میں ایک مرتبہ پھر عرب بہار (Arab Spring) کی جھلستی ہواؤں کے تھپیڑے، خون اور لہو لہان انسانی لاشوں کا بھیانک اور خوفناک سایہ روز بروز قریب آتا نظر آرہا ہے۔ شمالی افریقا میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع تیونس میں 15جنوری کو شب گئے پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، 19 جنوری 2021 کو یہ پُر تشدد مظاہرے اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے اور 20جنوری 2021 کو صدر جوبائیڈن کو حلف اُٹھانا تھا اس پوری صورتحال کا تعلق بائیڈن سے بہت گہرا ہے۔ عرب بہار کی شروعات2011ء میں تیونس میں آمریت کے خلاف پرتشدد مظاہروں سے ہوئی تھی۔ یہ تحریک سب صحارا کے افریقا سے آزادی کے تناظر میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا تک پھیل گیا تھا۔ سوڈانی عرب بہار تحریک کو غیر معمولی خیال جاتا رہا کیونکہ سوڈان لسانی اور ثقافتی اعتبار سے عرب دنیا کی جانب مائل ہے۔ دس برس قبل تیونسی شہری محمد بْو عزیزی کی خود سوزی نے عرب بہار کو زوردار تحریک بنادیا تھا۔ یہ تحریک تیونس سے شمالی افریقا اور مشرق وسطیٰ میں پھیل گئی جس کے منفی اثرات آج بھی موجود ہیں۔
جو بائیڈن اب یہ تحریک ایک نئے انداز سے دنیا میں پیش کرنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے 15جنوری کو خبر دی تھی کہ: سی آئی اے کے سابق نائب ڈیوڈ کوہین کو، سی آئی اے کا نیا ڈپٹی سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ ڈیوڈ کوہین کون ہیں قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خاص اسرائیلی نمائندے کے طور پر کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ سابق صدر اوباما کے دور میں بھی اسی عہدے پر موجود تھے۔ ڈیوڈ کوہین اور بائیڈن کی مشترکہ کوشش سے عرب بہار کا آغاز ہوا اور اس میں امریکا کو بہت کامیابی حاصل ہوئی تھی اب ایک مرتبہ پھر تیونس میں جاری ہنگاموں سے متعدد افریقی ملکوں کی حکومتوں کو عرب بہار جیسی تحریکوں کا خوف لاحق ہے۔ ان خدشات کی وجہ سے وہ اپنے اپنے ممالک میں حکومتی اپوزیشن کے خلاف سخت اقدامات کر رہے ہیں۔ زمبابوے میں حکومت نے ایک سابق رکن پارلیمنٹ اور پانچ دوسرے افراد پر تیونس اور مصر میں احتجاجی تحریکوں کے شرکاء کے ساتھ ملاقات کے جرم میں باغی قرار دے کر فردِ جرم عائد کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ سب صحارا افریقا میں ’عرب بہار‘ جیسی تحریک ممکن تھی؟ عرب بہار کی تحریک کو بنیادی طور پر خواتین کی خودمختاری، آزادی ٔ اظہار اور جمہوریت پسندی کی تحریک بتایا جاتا ہے۔ اس تحریک نے تیونس کے طاقتور حکمران زین العابدین علی کو اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔ 2019 میں وہ سعودی عرب میں انتقال کرگئے۔ زین العابدین علی کے اقتدار کے شروع کے دور میں تیونس میں اقتصادی بہتری ضرور آئی لیکن پھر سیاسی جبر اور بدعنوانی نے سب کچھ تباہ کر دیا۔
عرب بہار کی وجہ سے عوامی بیداری نے مصر کے آمر حسنی مبارک اور یمن کے علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے محروم اور لیبیا کے مطلق العنان لیڈر معمر القذافی کی حکمرانی کا سورج بھی غروب کر دیا۔ عرب بہار میں شروع ہو نے والی جنگوں کی وجہ سے بعض عرب اور چند افریقی ملکوں کو بھی خانہ جنگی، بدامنی اور سلامتی کی مخدوش صورتِ حال کا سامنا ہے۔ برکینا فاسو کے ہزاروں افراد 2014 میں طویل عرصے سے برسرِ اقتدار صدر بلائیس کامپورے کے خلاف سراپا احتجاج ہوئے تھے۔ وہ ستائیس برسوں سے صدر چلے آرہے تھے اور ایک بار پھر صدارتی الیکشن میں امیدوار بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ سینیگال میں نوجوانوں کی تحریک ’یہ ان مارے‘ کامیابی سے دستوری عدالت کے فیصلے کے خلاف کھڑی ہوئی اور سینیگالی صدر عبد الئی واڈے تیسری مدتِ صدارت کے الیکشن میں حصہ نہ لے سکے۔ مصر میں بھی حسنی مبارک کے خلاف شدید مظاہرے ہوئے لیکن جمہوریت کو فروغ نہیں مل سکا۔ اس تحریک کی وجہ سے اخوان المسلمین کو ملک میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی لیکن وہاں ملک کے منتخب صدر محمد مرسی کو اسی تحریک کے سائے میں برطرف کر کے موت کی سزا سنائی گئی اور وہ عدالت میں پیشی کے دوران شہید ہو گئے۔ مصر میں عوامی حمایت یافتہ اسلام پسندوں کی تحریک اخوان المسلمین کے خوابوں کو قبرستان میں تبدیل کردیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر کو بھی پرزور عوامی مظاہروں کے بعد اقتدار سے فارغ کر دیا گیا۔ عرب بہار برکینا فاسو، سینیگال اور سوڈان میں احتجاجی تحریکیں غیر معمولی انداز سے حکمرانو ں پر اثر انداز ہوئیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سب صحارا افریقی علاقوں میں مطلق العنانیت کے خلاف ایک تحریک تھی لیکن اس بارے میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں اور 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کئی افریقی ملکوں میں آمروں کو اقتدار سے فارغ ہونا پڑا۔
اس سلسلے میں عالمی سطح پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ افریقن بہار کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس میں عرب بہار جیسے بنیادی عوامل سِرے سے موجود نہیں ہیں اور سب صحارا علاقے کے ملکوں میں عرب ممالک جیسی بحرانی صورت حال پائی بھی نہیں جاتی۔ افریقی ملکوں میں سیاست اور انتخابات پر جھگڑے ہیں، جس کا مقصد حکومتی نظام کو اُلٹنا نہیں ہے۔ ان ملکوں کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ بعض افریقی ممالک میں جس طرح پولیس کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جا رہا ہے وہ آمریت اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بن سکتا ہے۔
خیال ہے کہ افریقی ممالک میں صورت حال اس جانب بڑھ رہی ہے، جو افریقن بہار کو جنم دے سکتی ہے۔
عرب بہار کا ایک اہم مقصد عرب ملکوں میں اخوان المسلمین کی تیزی بڑھتی ہو ئی مقبولیت، دنیا بھر میں برپا جہادی تحریکوں کی تیزی سے کامیابیاں اور دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو روکنا ہے جس سے امریکا سمیت دنیا بھر کی کفر کی حکومتیں بے انتہا خائف تھیں اور اب بھی ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے پراکسی وارکے ماہر بائیڈن کو عالمی اسٹیبلشمٹ سے بہت زیادہ قربت حاصل ہو گئی۔ پاکستان بھی خونیں بہار کے نرغے میں ہے اور یہاں ہونے والے مظاہرے اور دن گزرنے کے ساتھ ان کی شدت میں اضافہ یہی کچھ ثابت کر رہا ہے پاکستان بھی بائیڈن کی نظر میں ہے۔ عمران خان کا تعلق کس اسٹیبلشمنٹ سے ہے اس بارے میں بہت کچھ ان ہی کو معلوم ہوگا لیکن جاتے جاتے ٹرمپ کے کہہ گئے ہیں کہ وہ اس احساس کے ساتھ جارہے ہیں کہ انہوں کوئی نئی جنگ شروع نہ کرکے دنیا میں امن کا پیغام عام کیا۔ اللہ پاکستان کو ہر نظر ِبد سے بچائے رکھے۔