آئینہ نہیں چہرے کے دھبے صاف کریں

591

پاکستان میں پاکستان کی نہ تو اپنی معدنی دولت کم ہے، نہ ہی ملک کی صنعتی و زرعی پیداوار اور عوام پر لگائے جانے والے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی۔ کمی ہے تو صرف اتنی کہ حاصل ہونے والی آمدنی بمطابق ضرورت استعمال کی جائیں جس کا تعین پاکستان نہیں کر پا رہا۔ جس طرح کسی بھی گھر میں حاصل ہونے والی آمدنی کو کبھی بے سوچے سمجھے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس آمدنی کو ضروریات پر اس کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے گھر کی ضرورت پوری کرنے یا فاقوں سے بچنے کے لیے دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑ جاتا ہے۔ پھر زندگی بھر قرض کا جن اس کا پیچھا چھوڑ کر نہیں دیتا یہاں تک کہ قبر میں اُتار دیے جانے کے باوجود اس کے بیوی بچے اپنا تن من دھن سب کچھ قرضے کے اس جن سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ بات کسی اندازے یا قیاس آرائی پر نہیں کہی جا رہی بلکہ پاکستان میں لاکھوں بے بس و لاچار مزارعین اس بات کے گواہ ہیں کہ جن کے پرکھوں نے کسی وڈیرے، چودھری، ملک، سردار یا خان سے قرضہ لیا وہ سب اس کی پاداش میں برس ہا برس سے چند روٹی کے نوالوں عوض غلامی میں چلے گئے ہیں اور اپنی عزت، آبرو، غیرت اور حمیت تک ان کے سپرد کرنے کے باوجود اپنے پرکھوں کا قرض ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی حال پاکستان کا ہے۔ جب ملک کے حاکم، باختیار اور وہ سارے ادارے جن کا کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا، امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنا، آئین و قانون کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کو گرفت میں لینا، انصاف کو بلا امتیاز یقینی بنانا اور خادمان قوم کا عجز و انکساری کی زندگی بسر کرنے کے بجائے بادشاہوں جیسے انداز اختیار کرلینا، شعار بن جائے تو پھر قوم کو بھکاری اور بد حال ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ میرے پاس پورے پاکستان کی تو نہیں، لیکن پنجاب کی دیگ (محکمہ پولیس) کے ایک ’’چاول‘‘ کا تھوڑا سا ریکارڈ ضرور موجود ہے جس سے پاکستان کی ساری دیگوں (محکموں اور اداروں) کی عیاشیوں کا اندازہ ضرور لگا جا سکتا ہے۔
وہ چند پولیس آفیسرز جن کی ذاتی رہائش گاہوں کا یہ عالم ہو کہ ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی 98، ڈی سی او میانوالی کی کوٹھی 95 اور ڈی سی او فیصل آباد کی کوٹھی 92 کنال پر مشتمل ہو پھر اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ ملک کا وہ پیسہ جو عوام کے خون پسنے کو نچوڑ کر ٹیکسوں کی مد میں وصول کیا جاتا ہے وہ آخر جاتا کہاں ہے۔ یہ تو وہ پولیس آفیسرز ہیں جن کی رہائش گاہیں، بقول ان کے، ان کے باپ داداؤں سے وراثت میں ملیں ہیں لیکن ذرا ایک غریب اور مقروض ملک کے ان ہی اعلیٰ پولیس افسران کی رہائش گاہوں کا جائزہ بھی لے لیا جائے تو سننے اور پڑھنے والوں کے چودہ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ پنجاب پولیس کے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کی سرکاری رہائش گاہیں 2606 کنال پر مشتمل ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ڈی آئی جی گجرانوالہ 70، سرگودھا 60، راولپنڈی 20، فیصل آباد 20، ڈی جی خان 20، ملتان 18، لاہور 15 کنال پر مشتمل عمارات میں رہائش کے حق دار ہیں۔ اسی طرح ایس ایس پیز میں میانوالی 70، شیخوپورہ 32، گجرانوالہ 25، گجرات 8، حافظ آباد 10، سیالکوٹ 9، ٹوبہ ٹیک سنگ 5، ملتان 13، وہاڑی 20، خانیوال 15، پاک پتن 14، بہاولپور 15، بہاولنگر 32، رحیم یار خان 20، لیہ 6، راولپنڈی 5، چکوال 10، جہلم 6، اٹک 29، خوشاب 6، بکھر 8، راجن پور 37، نارو وال 10 کنال پر مشتمل سرکاری رہائش گاہوں میں رہائش کا سرکاری حق رکھتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان رہائش گاہوں کے لیے 20 ہزار ملازمین صرف ان کے باغوں میں کام کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کی سب عمارتیں شہروں کے ان علاقوں میں ہیں جہاں کی زمینیں سونے کا مول رکھتی ہیں۔
ایک بات تو یہ ہے کہ ان سرکاری پولیس آفیسرز کے لیے اتنے بڑے بڑے محلات کی ضرورت ہی کیوں ہے جن پر کروڑوں نہیں کھربوں روپے سالانہ کا خرچ آتا ہے اور دوم یہ کہ جن اخراجات کی کٹوٹی کی بات کی جاتی ہے ان میں یہ سارے محل کیوں شامل نہیں ہیں۔ نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے ممالک جن میں امریکا، برطانیہ اور جاپان جیسے ممالک شامل ہیں، وہاں ایسے سارے افسران دو دو تین تین کمروں کے سرکاری فلیٹوں میں رہائش رکھنے کے حق دار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ تو صرف چند پولیس اہلکاروں کے ہیں اور وہ بھی صرف پنجاب پولیس کے۔ ملک بھر کی پولیس، کمشنرز، وزرا، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، صدر اور وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہوں کو اس میں شامل کر لیا جائے تو سب کو بآسانی یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ عوام کا خون، پسینہ، ان کی ہڈیاں، بوٹیاں اور کھال کن کن سرکاری ممیوں پر لپیٹی جاتی ہیں۔ ان سب کے باوجود اگر ہمیشہ صرف سیاستدان ہی احتساب کے شکنجے کسے جاتے ہیں تو پھر یہ سمجھ لینا کہ پاکستان کی بنیادیں، بیرونی طاقتوں اور سازشیوں کو ہلانے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ یاد رکھیں! جب تک ہم اپنے چہروں کے داغ دھبے دھونے کے بجائے آئینوں پر ہی الزام دھرتے رہیں گے، ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کو پاکستان بنایا جا سکے۔ (بحوالہ جانِ ایمان فیس بک 5 اگست 2018)۔